سینیٹر عبدالرحمان ملک کی زیرصدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس

پیر 23 ستمبر 2019 19:06

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 23 ستمبر2019ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد سے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال، آئی جی پنجاب سے صلاح الدین کی قید کے دوران ہلاکت کے معاملہ کے علاوہ اڈیالہ جیل میں گینگ ریپ کے واقعہ پر آئی جی جیل خانہ جات سے تفصیلی بریفنگ حاصل کی گئی۔

قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے پاک افغان بارڈر پر نصب بارودی سرنگ کے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے افواج پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شہدا کیلئے دعائے مغفرت کی۔ قائمہ کمیٹی نے بابو سر ٹاپ میں بس حادثہ پر اظہار افسوس اور جاں بحق مسافروں کیلئے فاتحہ خوانی کی۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میجر عدیل شاہد اور جوان فراز حسین کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ ہم باڑ لگا رہے ہیں مگر افغانستان کی طرف سے بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی ہیں۔ بھارت کے تربیت شدہ دہشت گرد پاک افغان بارڈر پر پاکستان کے خلاف دہشت گری کر رہے ہیں۔ پاک فوج کی قربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے اور سلام پیش کرتے ہیں۔ ہر پاکستانی دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر اپنی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم مودی اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب نہیں ہوگا جس نے لاکھوں افراد کو قید و بند اور شہید، عورتوں کی عصمت دری اور بچوں کو یتیم کیا۔

مودی کے چہرے پر اس کی ندامت تک نظر نہیں آتی۔ مذہب اسلام ایک پرامن اور محبت کا درس دینے والا مذہب ہے، ہمارے مذہب کو بدنام کر کے غیر مسلم اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نادرا بیرون ملک سے واپس آنے والے لوگوں کا ریکارڈ چیک کرکے کمیٹی کو رپورٹ کرے۔ بے شمار لوگ غیر قانونی طور پر بیرون ممالک گئے ہیں ان پر نظر رکھی جائے۔

انہوں نے کہا کہ قوم کو خبردار کرتے ہیں کہ بھارت کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس اور داعش گٹھ جوڑ کر کے متحرک ہو رہی ہیں۔ ہمیں اپنی پالیسوں کو موثر بنانا ہوگا۔ مودی عالمی امن کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ انسانی حقوق کے اداروں اور پاکستان کے پارلیمنٹرین کو مقبوضہ کشمیر کے محصور لوگوں تک رسائی دی جائے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ ہمیں بھی دنیا بھر میں وفود بھیجنے چاہیں تاکہ بھارت کا مکروہ چہرہ اور اس کی کارستانی دکھائی جائے۔

کمیٹی اجلاس میں آئی جی پنجاب پولیس کیپٹن (ر) عارف نواز نے صلاح الدین کی پولیس حراست کے دوران ہلاکت پر تفصیلی آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ صلاح الدین کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، اس کا خیال ہم نہیں رکھ سکے اور قید کے دوران اس کی ہلاکت ہوئی۔ 30 اگست کو پولیس تحویل میں آیا اور 31 اگست کو ہلاک ہوا۔ ایس ایچ او سمیت ملوث اہلکاروں کے خلاف 302 کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔

ایس پی کو معطل اور ڈی پی او کا تبادلہ کر لیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی پولیس انکوائری کر رہے ہیں جبکہ جوڈیشل انکوائری بھی ہو رہی ہے۔ صلاح الدین کے والد کی درخواست پر قبر کشائی کر کے پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے اور ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی جس پر چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے کہا کہ جرم کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو پولیس کو حراست میں قتل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

اس طرح کے واقعات نہ صرف پولیس کی بدنامی بلکہ عوام کا پولیس پر عدم اعتماد کا باعث بنتے ہیں۔ صلاح الدین کی پولیس حراست میں ہلاکت سے عوام میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ اب تک 3045 لوگ پولیس حراست و مقابلے میں مارے گئے ہیں۔ ماورائے قانون قتل کی اجازت کسی صورت میں نہیں ہے۔ پولیس حراست میں قتل کے حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

پولیس حراست کے حوالے سے میں نے 26 پوائنٹ تجویز کئے ہیں۔ ہم نے پولیس کی مار دھاڑ و لتر پروگرام ختم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب پولیس خود اس طرح کے واقعات کی انکوائری کر ے گی توشفافیت ممکن نہیں ہو گی۔ جب آئین پولیس کو مار پیٹ کی اجازت نہیں دیتا تو پولیس نے یہ کلچر غیر قانونی پر کیوں اختیار کر رکھا ہے، کس اختیار کے تحت قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔

صلاح الدین کی موت میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سینیٹر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد چاروں صوبوں میں اپنے قوانین چل رہے ہیں سب کو ساتھ ملا کر یکساں قانون بنانا چاہئے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ایک ذہنی مریض پر اتنا ظلم کیا گیا کہ اس کی جان ہی لے لی گئی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تھانوں میں لکھا جائے کہ ٹارچر کی صورت میں ایس ایچ او ذمہ دار ہوگا۔

سینیٹر رانا محمود احمد نے پولیس اصلاحات کے حوالے سے مختلف تجاویز بھی پیش کیں۔ چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر محمد جاوید عباسی کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی تشکیل دی جو سینیٹ میں پیش ہونے والے دو بلوں کا جائز ہ لے گی جنہیں سینیٹر فرحت الله بابر نے سینیٹ اجلاس میں پیش کیا تھا۔ ایک بل سینیٹ نے پاس کر کے قومی اسمبلی کو ریفر بھی کیا تھا۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ قائمہ کمیٹی داخلہ کو قصور میں معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے واقعات پر سخت تشویش ہے۔

آئی جی پنجاب 27 ستمبر کو کمیٹی کے اجلاس میں قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات پر مکمل رپورٹ پیش کرے۔ قصور میں کیوں مسلسل بچوں کے ساتھ زیادتی و قتل کے واقعات ہو رہے ہیں۔ معلوم کیا جائے کہ قصور واقعات میں کہیں بچوں کی پورن گرافی کا عنصر شامل تو نہیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ پولیس اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ایسا قانون بنائیں جس سے معاملات میں بہتری آئے۔

ایسے واقعات کی صورت میں ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو فوری طور پر ہٹایا جائے اور پولیس قید میں زیادتی کے کیسز کو بھی دیکھا جائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چاروں ہوم سیکرٹریز، چیف سیکرٹریز اور آئی جیز کو بلا کر اس حوالے سے ایک مسودہ تیار کیا جائے گا تاکہ ایسے واقعات کو کنٹرول کیا جا سکے۔ قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو آئی جی اسلام آباد پولیس نے وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی آگاہ کیا۔

اجلاس میں کمیٹی نے اسلام آباد پولیس کے شہداء کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی مغفرت کی دعا کی۔ آئی جی اسلام آباد پولیس نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس کی نفری کو پورا کرنے کیلئے وزیراعظم نے 1280 پوسٹوں کی منظوری دے دی ہے جو2004ء سے التوا کا شکار تھیں، موجودہ حکومت اسلام آباد پولیس کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اسلام آباد پولیس کے شہدا کو 20 لاکھ اور باقی صوبوں کی پولیس کو 2 کروڑ ملتا تھا، وزیراعظم پاکستان نے وہ بھی دوسرے صوبوں کے مساوی کر دیا ہے۔

نئے ہائوسنگ پروگرام میں اسلام آباد پولیس کیلئے بھی منصوبہ ہے، ہمیں ہمارا حصہ ملے گا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کیلئے کوئی ہسپتال نہیں ہے اس کیلئے کوئی تجویز فراہم کریں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اسلام آباد کی 2 ملین کی آبادی ہے اورعلاقہ 906 سکوائر کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ گزشتہ سال کی نسبت جرائم میں 21 فیصد کمی ہوئی۔ اسلام آباد پولیس کی قید میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی اور نہ ہی ٹارچر کی شکایت ملی ہے۔

امن و امان کیلئے شہر کے مختلف مقامات پر 22 ناکے لگائے ہیں جہاں پولیس اور رینجرز کی420 اہلکار ڈیوٹی کرتے ہیں۔ پیٹرولنگ پولیس میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد پولیس کے حوالے سے 77 فیصد مثبت خبریں جاتی ہیں جس کیلئے میڈیا کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ چوری کے 246 کیسز میں سے 66 کروڑ کی ریکوری کی ہے، 100 سے زائد گاڑیاں پکڑی ہیں اور 17 اندھے قتل کے کیسز کا سراغ لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کے اغوا کے کنٹرول کیلئے والدین کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ منشیات کے 1202 کیسز میں 1343 لوگوں کو پکڑا جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہسپتالوں میں لیگل میڈیکل افسران کی تعیناتی نہ ہونا بھی تشویش کی بات ہے۔ اسلام آباد کے تین سیکٹرز کے باسیوں سے چوری و ڈکیتی کے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ اسلام آباد کے دیہی علاقوں میں منشیات کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور منشیات فروشوں کے نیٹ ورک کو ختم کیا جائے۔

انہوں نے اسلام آباد پولیس کو اقوام متحدہ کی طرف سے پرامن شہر برائے فیملی ڈیکلیئر کرنے پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ یہ نہایت خوش آئند ہے کہ اسلام آباد کو سیف سٹی فار فیمیلز ڈیکلیئر کیا گیا۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ اسلام آباد کے نیٹ کیفوں میں فحاشی پر مبنی فلموں پر 4250 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی اس حوالے سے اسلا م آباد پولیس کو سپورٹ کرے جس پر چیئرمین کمیٹی نے پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو ہدایت کی کہ وہ آئی جی پولیس اسلام آباد سے مل کر بہتری کے لئے تجویز تیار کرے۔

سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ سرکاری ملازمین اپنی ذاتی گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹ لگا کر قانون کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، اس کی روک تھام کیلئے اقدام اٹھائے جائیں۔ کمیٹی کو بتایاگیا کہ محرم میں پولیس اہلکاروں کی مختلف جگہوں پر ڈیوٹیوں کی وجہ سے اسلام آباد کے کچھ سیکٹروں میں چوری اور ڈکیتوں کے واقعات ہوئے، اب ان کو کنٹرول کر لیا گیا ہے۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قیدی کے ساتھ جنسی زیادتی کے معاملہ کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ آئی جی پنجاب جیل خانہ جات نے کمیٹی کو تفصیلات سے آگاہ کیا 3 تاریخ کو whatsapp کے ذریعے جنسی زیاتی کی خبر ملی اسی دن انکوائری کرائی گئی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ تیمور نامی لڑکا اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ جیل میں قید تھا۔ جیل میں 2200 قیدیوں کی گنجائش ہے جبکہ وہاں 5 ہزار سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔

لڑکے نے ڈیرھ ماہ بعد بتایا تھا کہ اس کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے تین لوگوں پر الزام لگایا تھا جب الزام لگایا گیا تھا تو اٴْس کا آدھے گھنٹے کے اندر میڈیکل کرایا گیا، 17اہلکاروں کو شوکاز نوٹس اور 11کو معطل کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے اسی دن جیل پر مامور اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی اور گھوٹکی واقعہ کے حوالے سے آئی جی سندھ سے رپورٹ طلب کی گئی۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سوات میں ایک لڑکی کو تعلیم حاصل کرنے پر اس کے شوہر نے قتل کر دیا اور لڑکے کو فرانس بھجوا دیا گیا۔ کمیٹی نے اس واقعہ کی رپورٹ بھی طلب کرلی۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اڈیالہ جیل میں مختلف صوبوں کے قیدیوں کو بھی رکھا گیا ہے، 800 قیدی صوبہ خیبر پختونخوا سے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے قیدی واپس صوبوں کو بھیجنے کی سفارش کی۔

کمیٹی اجلاس میں سینیٹر اورنگزیب خان کے حوالے سے بلوچستان کے ایک شخص کے شناختی کارڈ منسوخ کرنے کے معاملے کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ متعلقہ شخص کے دادا اور ان کی زمین کا ریکارڈ موجود ہے تو کس طرح ایک پاکستانی کو شناختی کارڈ جاری نہیں کیا جا سکتا۔ چیئرمین نادرا نے کہا کہ پہلے وزارت داخلہ نے تصدیق کی تو شناختی کارڈ جاری کیا گیا، بعد میں کہا گیا کہ وہ لیٹر جعلی تھا تو شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا، اس کے خلاف کوئٹہ کی کمیٹی نے فیصلہ دیا تھا۔

متعلقہ شخص نے کمیٹی کو بتایا کہ شناختی کارڈ کیلئے پہلے 50 لاکھ مانگے گئے، اب ایک کروڑ سے زائد مانگا جا رہا ہے۔ رشوت مانگنے والے کا تعلق نادرا سے نہیں ہے۔ قائمہ کمیٹی نے جعلی لیٹر کے حوالے سے انکوائری کی ہدایت کر دی جس پر چیئرمین کمیٹی نے سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنا کر تین دن کے اندر رپورٹ طلب کر لی۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے کہا کہ صوبہ بلوچستان میں شناختی کارڈ کیلئے لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پہلے بھی سینیٹر کلثوم پروین کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی بنائی تھی، اس کو دوبارہ فعال کرتے ہیں تاکہ معاملات کاجائزہ لے کر رپورٹ تیار کی جا سکے۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز کلثوم پروین، جاوید عباسی، میاں محمد عتیق شیخ، رانا محمود احمد، سردار محمد شفیق ترین، ڈاکٹر شہزاد وسیم، اورنگزیب خان اور حاجی مومن خان آفریدی کے علاوہ سیکرٹری وزارت داخلہ، ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ، آئی جی پولیس اسلام آباد، آئی جی پولیس پنجاب، آئی جی جیل خانہ جات، چیئرمین نادرا، ایڈیشنل آئی جی پنجاب ، ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد، ڈی پی او رحیم یار خان، ڈی سی اسلام آباد اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔