پاکستان اور بھارت کو جنگ سے زیادہ خطرہ موسمی تبدیلی سے ہے: میاں زاہد حسین

جنوبی ایشیاء دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے، خطرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کئے جائیں

پیر 23 ستمبر 2019 20:38

پاکستان اور بھارت کو جنگ سے زیادہ خطرہ موسمی تبدیلی سے ہے: میاں زاہد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 ستمبر2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چےئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو جنگ سے زیادہ خطرہ موسمی تبدیلی سے ہے۔دونوں ملکوں کے مابین جنگ یقینی نہیں مگر موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہی میں کوئی شک نہیں۔

موسمیاتی تبدیلی اب سائنسی موضوع نہیں رہا بلکہ ایک حقیقت بن چکا ہے اور جنوبی ایشیاء دنیا کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں شامل ہے جبکہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ موسم گرما کی شدت اور طوالت میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ موسم سرما میں سردی بھی بہت بڑھ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

گرمی کی غیر معمولی لہر یں معمول بن چکی ہیں جبکہ گزشتہ سال پاکستان میں درجہ حرارت 51 ڈگری تک ریکارڈ کیا جا چکا ہے ۔انھوں نے کہا کہ موسم کی تبدیلی سے بے وقت بارشیں اورسیلاب بھی معمول کا حصہ بن رہے ہیں جس سے بھاری نقصانات ہوتے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں۔اسکے علاوہ گلیشئیربھی تیزی سے پگھل رہے ہیں جس سے اچانک سیلاب آ جاتے ہیں جبکہ دریاؤں کے نظام پر ضرب پڑتی ہے۔

پاکستان میں پانی کی کمی کی وجہ سے پینے کے پانی، زرعی مقاصد اور صنعت کے لئے زیر زمین پانی پر انحصار بڑھ رہا ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ملک میں فی ایکڑ زرعی پیداوار پہلے ہی افسوسناک حد تک کم ہے جبکہ موسم بدلنے سے اسے مزید خطرات لاحق ہو گئے ہیں جبکہ بلوچستان اور سندھ کے بعض علاقوں میں اکثر قحط جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں فضائی آلودگی بھی مسلسل بڑھ رہی ہے جس سے زراعت،لائیو سٹاک اور عوام کی صحت کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان کو آٹھویں نمبر پر رکھا گیا ہے کیونکہ یہاں چند سال میں پانی کی زبردست کمی واقع ہو جائے گی اور دیگر عوامل سے کروڑوں افراد متاثر ہو نگے۔پاکستان اور بھارت کے مابین سندھ طاس معاہدہ موجود ہے مگر دونوں ملکوں کی زیادہ توجہ پانی کے حصول پرمرکوز ہے جبکہ موسمیاتی خطرات کے مقابلہ کے لئے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے ۔