ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبروں کی تردید

پاکستانیو! اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں سلامت ہوں، میرے مرنے کی خبریں فیس بک پر میرے اور ملک دشمن عناصر لگا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا پیغام

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان منگل 24 ستمبر 2019 12:42

ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبروں کی تردید
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 24 ستمبر 2019ء) : گذشتہ رات ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے انتقال کی خبریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھیں جس کی اب تردید کر دی گئی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر عبدالقدیر خان علالت کے باعث اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی علالت کے باعث سوشل میڈیا پر ان کے انتقال کی خبریں گردش کرتی رہیں۔

تاہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے فیس بک کے ذریعے ایسی تمام خبروں کی تردید کی ہے۔فیس بک پوسٹ میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تصویر شئیر کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ میرے پاکستانیو! اسلام وعلیکم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں سلامت ہوں. میرے مرنے کی خبریں فیس بک پر میرے اور ملک دشمن عناصر لگا رہے ہیں۔
اس پوسٹ پر صارفین نے ان کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا ویڈیو پیغام بھی سامنے آیا ہے، خیال رہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان یکم اپریل 1936 کو بھارت کے شہر بھوپال میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک نامور سائنسدان تھے۔ انہوں نے مئی 1998 ء میں بلوچستان کے شہر چاغی میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا جس کے بعد پاکستان پہلے اسلامی ملک کے طور پر سامنے آیا جو کہ ایٹمی طاقت سے مالا مال تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہلال امتیاز اور پاکستان کے سب سے بڑے اعزاز نشان امتیاز سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایک ممتاز کالم نگار بھی ہیں۔ انہوں سائنسی، تحقیقی اور مختلف موضوعات پر سینکڑوں مضامین بھی لکھے ہیں۔ فیس بک پر ان کے مداحوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ میں ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان کی نظر بندی سے متعلق کیس بھی زیر سماعت تھا جس کے بعد پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبد القدیر خان نے حکومت کے نام ایک کُھلا خط لکھا تھا جس میں کہا گیا کہ میں نے لاہور ہائیکورٹ میں اپنے اوپر حکومت کی جانب سے چند غیر قانونی اور بلاجواز رکاوٹیں ڈالنے پر پٹیشن دائر کی۔

جب میں نیوکلئیر پروگرام اور ایٹمی بم بنانے میں مصروف تھا اس وقت میرے ساتھ رفقائے کار ہوتے تھے نہ ہی میرے ساتھ گارڈز ہوتے تھے، اُس وقت نہ میرے ساتھ کوئی بندوقیں تھیں، نہ فوجی اور نہ ہی رینجرز۔ ایٹمی دھماکوں کے چھ برس بعد تک میں دنیا میں سفر کرتا رہا ہوں۔ اس وقت سب کو علم تھا کہ میں کون ہوں۔ اور اب جبکہ میں 83 سال سے زیادہ عمر رسیدہ ہو چکا ہوں ، چلنا پھرنا مشکل ہے۔

میں اپنے ملک میں ہی ہوں۔ اور باہر جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں ہے تو اس دروغ گوئی سے مجھے پریشان کیا جا رہا ہے۔میں محب وطن پاکستانی ہوں میں نے اور میری بیوی بچوں نے ملک کی خاطر خاندانی زندگی قربان کر دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں جان دے دوں گا کبھی ملک سے غداری نہیں کروں گا۔ میں ایک عام انسان کی طرح اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔