سپرپاورز کی پراکسی وار نے ہمارے خطے کو جنگ کا ایندھن بنائے رکھا، میاں افتخار حسین

چالیس سال تک جنازے اٹھاتے رہے ہیں لیکن اب مزید یہ ماحول نہیں چلے گا،پاکستان اور افغانستان کو مل کر اپنے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنا چاہئیں سلیکٹڈ وزیر اعظم افغانستان، ایران میں مداخلت جیسے جرم کا برملا اعتراف کر چکے ہیں،،، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین

منگل 1 اکتوبر 2019 23:13

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 اکتوبر2019ء) عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میاں افتخارحسین نے کہا ہے کہ سپرپاورز نے اپنے مفادات کی خاطر ہمارے خطے پر آگ لگائی ،خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کے بغیر اس اگ کو بجھانا ممکن نہیںہے،ہمارا ماضی بہت تلخ ہے لیکن زندہ قومیں اپنا ماضی فراموش کر کے مستقبل پر نظر رکھتی ہیں،امن مذاکرات کے جلد دوبارہ آغاز کیلئے افغان حکومت کی شمولیت اور سیز فائر ضروری ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پشاور کے ایک مقامی ہوٹل میں افغان قونصلیٹ کے زیر اہتمام افغانستان کی100ویں یوم استقلال کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،حاجی غلام احمد بلور اور دیگر قائدین بھی ان کے ہمراہ تھے،میاں افتخار حسین نے کہا کہ پاکستان کو مضبوط دیکھنے کیلئے افغانستان میں امن کی ضرورت ہے،چین ،روس اور امریکہ سمیت پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ چالیس سال تک جنازے اٹھاتے رہے ہیں لیکن اب مزید یہ ماحول نہیں چلے گا،انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکہ کو مل کر اپنے مسائل حل کرنا چاہئین جبکہ چین روس اور امریکہ کو اس میں ثالث کا کردار ادا کرنا چاہئے،انہوں نے کہا کہ دنیا کی ہر آزاد قوم دوسری اقوام کی آزادی کااسی طرح احترام کرتی ہے جیسا اپنی آزادی کا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

اور جس طرح ہر قوم کو اپنی آزادی عزیز ہوتی ہے اور اس کی خوشی مناتی ہے اس طرح افغان قوم کو بھی اپنی آزادی عزیز ہے۔اور ہم ان کے ساتھ جشن آزادی کی اس خوشی میں برابر کے شریک ہیں ، انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ دینی۔تہذیبی اور خونی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں برادر اسلامی ممالک ہیں اور اس وقت دونوں ممالک بدامنی اور دہشت گردی کا شکار ہیںلہٰذا دونوں ممالک کو اس صورتحال پر مکمل قابو پانے کے لیے اپنے مشترکہ دشمن کومات دینا ہوگی اور اس مقصد کیلئے مشترکہ طور پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرنا ہو گی ،انہوں نے کہا کہ ہمارا وزیر اعظم افغانستان اور ایران میں مداخلت اور القاعدہ کو ٹریننگ دینے کے جرم کا برملا اعتراف کر چکے ہیں، پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے کیساتھ جڑا ہوا ہے تاہم اگر اوائل میں اگر ہمارے قائدین کی بات مانی جاتی تو آج دونوں ممالک کو موجودہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان ویزہ پالیسی کی شرائط نرم کر کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لایا جا سکتا ہے،کرتارپور راہداری جیسا رویہ افغانستان کے معاملے پر کیوں نہین اپنایا جاتا،دونوں ملکوں کی جامعات کا آپس میں رابطہ ہونا چاہئے ،انہوں نے کہا کہ ہم دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہین اس لئے افغانستان کا دکھ محسوس کر سکتے ہیں، میں پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کی خصوصی ہدایت پر آیا ہوں اور ان کی طرف سے اپنے افغان بھائیوں اور حکومت کو جشن آزادی پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی اور شدت پسندی نے آج پوری دنیا میں ایک مائنڈ سیٹ کی شکل اختیار کررکھی ہے اس لیے دنیا کی تمام امن دوست اور بشردوست قوتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ مل کر اس مائنڈ سیٹ کومات دیں۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے علاوہ کوئی آپشن نہیں اور دونوں ممالک کو اپنی خارجہ و داخلہ پالیسیاں قومی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے از سر نو تشکیل دینی چاہئیں۔