ریاستی باشندوں کو قرآن و سنت کے مطابق زندگی ڈھالنے کیلئے اقدامات ، سہولیات کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے،جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء

ریاست اسلامی کے اصولوں کے مطابق عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مقامی حکومتوں ، اداوں کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچا کر لوگوں کے مسائل حل کرے، چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر ہائیکورٹ

پیر 7 اکتوبر 2019 22:57

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 اکتوبر2019ء) چیف جسٹس آزادجموںوکشمیرجسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء نے کہا ہے کہ تیرویں آئینی ترمیم کے تحت ریاست اور تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ایسے اقدامات اور سہولیات فراہم کریں جو ریاستی باشندوں کو قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے میں مدد گار ثابت ہوں ۔

ریاست اسلامی کے اصولوں کے مطابق عوام کے مسائل کو حل کرنے کیلئے مقامی حکومتوں اور اداوں کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچا کر لوگوں کے مسائل حل کرے۔گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 2514 مقدمات کے فیصلے ہوئے اور اس وقت1990مقدمات زیر کار ہیں۔ہائیکورٹ میں 6392مقدمات کے فیصلے ہوئے اور اس وقت8139مقدمات زیر کار ہیں ۔ شریعت اپیلٹ بینچ میں 2786مقدمات پر فیصلے ہوئے اور اس وقت 2259مقدمات زیر کار ہیں ۔

(جاری ہے)

ضلعی عدلیہ میں گزشتہ سال سے اب تک 25069مقدمات پر فیصلے ہوئے اور 42776مقدمات زیر کار ہیں ۔ احتساب کورٹ میں132اور سروس ٹربیونل میں 1448مقدمات پر فیصلے ہوئے ہیں ۔ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی غیر جاندارانہ اور آزادانہ فیصلے ،آئین کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی اور اعلیٰ پیشہ وارانہ اصولوں کی بجاآوری کیلئے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور اس سلسلہ میں عوام کی امیدوں اور خواہشات پر پورا اترنے کی ہر ممکن جستجو کریں گے۔

تیرویں آئینی ترمیم کے ذریعے آزادجموںوکشمیرکے عبوری آئین 1974میں اہم تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔باشعور معاشروں کے اندر آئینی و قانونی تبدیلیاں صرف کاغذات کی حد تک محدو نہیں رہتی بلکہ ان کی روح کے مطابق عملی طور پر اقدامات اٹھائے جانا ناگزیر ہوتا ہے انصاف کی فراہمی میں وکلا کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ایک وکیل اپنے علم تدبیر کے مطابق حکمت کے سات معاشرے میں ظلم کے خاتمہ اور آئینی حقوق کی پاسداری اور تحفظ کے ساتھ ساتھ آئین کی مکمل بالا دستی اور قانون کی عملداری کیلئے کردار اداکرتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار چیف جسٹس آزاد جموںوکشمیر چوہدری محمد ابراہیم ضیا ء نے آزاد جموںوکشمیر سپریم کورٹ کے نئے عدالتی سال 2019کے آغاز پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقریب سے رجسٹرار آزاد جموںوکشمیر سپریم کورٹ شیخ راشد مجید، ایڈوکیٹ جنرل آزاد جموںوکشمیر سردارکرم داد خان اور صدر آزاد جموںوکشمیر سپریم کورٹ بار راجہ انعام اللہ خان نے بھی خطاب کیا ۔

اس موقع پر آزاد کشمیر کے وزیر قانون و پارلیمانی امور سردار فاروق احمد طاہر ،سینئر جج آزادجموںوکشمیر سپریم کورٹ جسٹس راجہ سعید اکرم خان ،جسٹس غلام مصطفی مغل،سیکرٹری اطلاعات و سیاحت محترمہ مدحت شہزاد، سیکرٹری قانون و پارلیمانی امور ارشاد احمد قریشی،چیئرمین سروس ٹریبونل ،ڈائریکٹر جنرل تعلقات عامہ راجہ اظہر اقبال ،ڈائریکٹرجنرل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ ڈاکٹرخالد رفیق،ممبران سروس ٹریبونل،صدور عہدداران وممبران بار کونسل،ضلعی وتحصیل کمیٹیاں وکلا اور سٹاف سپریم کورٹ موجود تھے۔

اس موقع پر وزیر قانون سردار فاروق احمد طاہر کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے جوڈیشل کانفرنس 2019اور سالانہ رپورٹ2018-19پیش کی ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آزاد جموںوکشمیر جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء نے کہا کہ آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین 1974ء کی روح و منشاء کے تحت عدلیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ریاست کے کسی ادارے یا اتھارٹی کے خلاف آئین یا قانون ہونے یا نہ ہونے کی نسبت عدالتی نظر ثانی کا اختیار استعمال میں لائے۔

انہو ں نے کہا کہ کوئی سرکاری حکم یا عمل جو کہ آئین یا قانون سے روگردانی کر تے ہوئے کیا گیا ہو امتیاز ی حکم یا فعل کے ذمرے میں آتا ہے جس کی وجہ سے بد انتظامی اور نتیجتاً ناانصافی پیدا ہوتی ہے۔ انہو ںنے کہا کہ ناانصافی کی وجہ سے ریاست کے باشندوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ منفی ارتقائی عمل معاشرہ میں بے چینی، بد امنی اور انارکی کا باعث بنتا ہے۔

معاشرہ کے ارتقاء اور امن و امان کے تسلسل اور ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی کو ہر صورت میں نافذ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت العظمی میں اس وقت2017-18کا کوئی مقدمہ زیر کار نہیں ہے۔ قواعد و ضوابط کی رو سے مقدمہ کے مختلف مًدارج طے ہوتے ہونے میں 5سے 6ماہ کا وقت لگنا معمول کی بات ہے البتہ فوری اور مفاد عامہ کی نوعیت کے مقدمات کے قواعد میں نرمی کرتے ہوئے جلد از جلد فیصلہ جات صادر کیے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ گزشتہ عدالتی سال میں 13جولائی 2019ء یوم شہداء کشمیر کے موقع پر عدات عظمیٰ نے اپنی نوعیت کی اولین اور کامیاب جوڈیشل کانفرنس کا انعقاد کیا۔ کانفرنس میں عدالت العالیہ کے چیف جسٹس، جج صاحبان، ضلعی عدلیہ کے جج صاحبان، قاضی صاحبان، انجمن ہائے وکلاء کے عہدیداران و ممبران، اعلیٰ انتظامی آفیسران کے علاوہ گلگت بلتستان کے چیف جج صاحب اور بار کے نمائندگان نے بھی شرکت کی۔

انہوں نے کہاکہ ایک روزہ کانفرنس کے موضوعات میں نظام فراہمی انصاف، مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیاں/ خلاف ورزیاںاور آزاد جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کے آئینی معاملات شامل تھے۔ کانفرنس میں متذکرہ موضوعات پر مقالہ جات پڑھے گئے اور تقاریر کی گئیں۔ کانفرنس کے آخر میں اعلامیہ اور سفارشات پیش کی گئیں۔ کانفرنس کی تمام کارروائی کی تفصیلات اور مواد رپورٹ کی شکل میں شائع کیا گیا ہے جو کہ عدالت العظمی کے رجسٹرار آفس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔

امید ہے کہ جوڈیشل کانفرنس 2019 کی سفارشات پر عملدرآمد کروایا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ سٹیٹ جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی ایکٹ 2017ء کی منشاء کے مطابق سٹیٹ جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کی تشکیل ہوچکی ہے جس میں 39سے زائد سفارشات مرتب کی گئی ہیں۔ ان سفارشات میں نظام فراہمی انصاف کی بہتری کے لیے دیوانی، فوجداری اور انتظامی نوعیت کے اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔

ان میں سے بیشتر پر عملدرآمد شروع ہوچکا ہے۔ ریاست کی تمام اعلیٰ و ماتحت عدالتیں جوڈیشل پالیسی کو بروئے کار لانے میں نامساعد حالات کے باوجودکوششیں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ مقدمہ عنوانی نعمان اجمل بنام نعیم نسیم وغیرہ میں فراہمی انصاف کی نسبت تجاویز اور اقدامات تجویز کیے گئے ہیں جو سالانہ رپورٹ کاحصہ ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ عدالتیں نہ صرف جوڈیشل پالیسی میں وضع کیے گئے اصولوں کو بار کے تعادن و اشتراک سے اجتماعی دانش و شعور کو بروئے کار لا کر مزید بہتری کے لیے بھرپور کردار ادا کریں تاکہ عام آدمی کو بروقت فراہمی انصاف کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا جا سکے۔

ان تمام کے باوجود ہر نظام میں بہتری اور مزید ترقی کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ شعبہ قانون و انصاف سے منسلک اور دیگر افراد و ادارے نظام فراہمی انصاف کی مزید بہتری کے لیے اپنی سفارشات و تجاویز پیش کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس آزادجموں وکشمیر نے کہا کہ تیرہویں ترمیم کے ذریعے آزادجموں و کشمیر عبوری آئین 1974 میں نہایت اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

باشعور معاشروں کے اندر آئینی و قانونی تبدیلیاں صرف کاغذ تک محدود نہیں رہتی بلکہ اٴْن کی روح کے مطابق عملی طور پر اقدامات اٹھائے جانا ناگزیر ہوتا ہے۔ تیرہویوں ترمیم سے جہاں بنیادی حقوق کی فہرست میں اضافہ ہوا ہے وہاں پرآرٹیکل 3-A تا 3-کا اضافہ کرتے ہوئے ا ساسی اصولوں کو بھی آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ان اساسی اصول ہا کے مطابق ریاست اور تمام اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ انفرادی و اجتماعی طور پر ایسیاقدامات اور سہولیات فراہم کریں جو ریاستی مسلمان باشندوں کو قرآن و سنت کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے میں مددگار ثابت ہوں۔

قرآن اوردینی تعلیم لازمی ہو۔ اتحاد اور اسلامی اخلاقیات کو فروغ دیا جائے۔ نظام اوقاف، عشر و زکوٰة اور مساجد کو منظم کیاجائے۔ ان اساسی اصولوں کے مطابق عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے مقامی حکومتوں اور دیگر اداروں کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح تک پہنچا کر لوگوں کے مسائل حل کیے جائیں۔قبائلی و ثقافتی تعصبات کا خاتمہ کیا جائے۔ مضبوط خاندان کی بنیاد کے لیے شادی، خاندان، ماں اور بچے کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

اقلیتوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انہیں ملازمتوں اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں نمائندگی حاصل ہو۔ پسماندہ طبقات کو اٹھانے کے لیے خصوصی تعلیمی اور معاشی اقدامات اٹھائے جائیں۔ جہالت کے خاتمے کے لییابتدائی تعلیم مفت فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہاکہ پیشہ ورانہ اور ماہرانہ تعلیم کو فروغ دیا جائے۔ کم خرچ اور فوری انصاف کو یقینی بنانا ، محنت کش طبقے کے لیے کام کے بہترین صحتمند مواقع کے ساتھ ساتھ عمر، جنسی اور دیگر حقوق کے حوالے سے قانون سازی اوراقدامات اٹھانا، ریاست کے اندر زراعت کے ساتھ ساتھ صنعتی ترقی اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنا، غیرصحتمند اور غیر اخلاقی اقدامات کا تدارک کرنا، معاشی عدم تفاوت کو ختم کرنا، سود کاخاتمہ اورخواتین کو تمام شعبہ ہائے زندگی میں شمولیت کے مساوی مواقع فراہم کرنا ایسے اہم مقاصد ہیں جن کے حصول کے لیے کسی ایک شخص یا ادارے نے نہیں بلکہ پوری ریاست کے اداروں نے اجتماعی اور انفرادی طور پر اپنی ذمہ اریوں کو نبھانا ہے۔

اس کے پیشِ نظر عدالت ہذا نے فیصلہ عنوانی نعمان اجمل بنام معین نسیم وغیرہ میں قرار دیا ہے کہ حکومت آرٹیکل 3-A کی ذیلی آرٹیکل(3) کے منشاء کے تحت ہر سال اسمبلی میں رپورٹ پیش کر کے عوامی امنگوں کے مطابق پالیسی وضع کرے۔ آئین کی یہ تبدیلی اس بات کی متقاضی ہے کے ادارے اور حکام ڈیڑھ انچ کی مسجد قائم کرنے یا مصنوعی دیواروں کے پیچھے چھپنے کے بجائے اپنی قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے باہمی تعاون و اشتراک سے پالیسی اپنا کر آئینی مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہیں۔

اس ضمن میںعدالت ہذا نے کوشش کی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے دیگر اداروں کے لیے مشکلات پیدا نہ کی جائیں اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ریاستی اداروں کے اشتراک اور تعاون کو مدِ نظر رکھا جائے۔ الحمد للہ اس حوالے سے کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی۔ اس مرحلہ پر میں انتظامیہ اور تمام اداروں وحکام کی توجہ ان کی ذمہ داریوں کی طرف دلا کر آئین و مفاد عامہ کے مطابق پوری کرنے کی ہدایت کرتا ہوں تا کہ خوش اسلوبی سے نظام چلے اور عدلیہ کو قانون کی عملداری کیلے سخت اقامات نہ اٹھانے پڑیں۔

انہوںنے کہاکہ ریاست جموں و کشمیر کے لوگ کئی دہائیوں سے اقوام عالم کے ضمیر کے لیے سوالیہ نشان ہیں کہ کب اقوام عالم اپنے کیے گئے وعدے پورے کریں گی۔ ریاست جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارتی حکومت کے حالیہ اقدامات نہ صرف آئین و قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ ریاست کے لوگوں کے ساتھ ظلم اور پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈالنے اور لاقانونیت کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔

ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ حصے کی آزادانہ رائے شماری تک بھارت کے ساتھ جو رشتہ تھا وہ مکمل جمہوری اصولوں کے مطابق منتخب حکمرانی پر منحصر تھا۔ 1956 میں آئین ساز کمیٹی کی سفارشات کو منظور کیا گیا مگر اس کے برعکس وہاں نہ تو منتخب حکومت ہے اور نہ ہی منتخب حکمران بلکہ یکطرفہ طور پر بھارتی حکومت نے بھارتی آئین کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہوئے ریاست جموں و کشمیر کی مسلمہ بین الاقوامی حیثیت کو بدل دیا ہے جس کو مسترد کرتے ہوئے شدید مذمت کرتے ہیں اور تمام دنیا کے امن اور انصاف پسند حکمرانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ اس ضمن میں اپنا کردار ادا کریں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ رپورٹ اور جوڈیشل پالیسی کے مقالہ جات میں وکلاء اور دیگر اہل دانش کی طرف سے جو تجاویز پیش کی گئیں اٴْن کو دہرانے کی چنداں ضرورت نہ ہے۔ ان ذمہ داریوں کو پورا کر کے ہم اپنی منزل کو پاسکتے ہیں۔پچھلے سال کے آغاز پر میں نے اپنے خطاب میں عدالت عظمیٰ کی آئینی حیثیت اور نظام فراہمی انصاف، تحصیل و ضلع قاضی صاحبان سے متعلقہ معاملات، وکلاء کے کردار، جوڈیشل اکیڈمی کے قیام، جیل خانہ جات کی حالت، بیرون ملک مقیم شہریوں کے مقدمات کے فوری تصفیہ، میڈیا،پولیس اور انتظامیہ کے کردار کے حوالے سے تجاویز پیش کی تھیں جن میں سے کچھ پر عملدرآمد ہوا ہے بقیہ پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔

میں اس بات کا اعادہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم فوری اور سستے انصاف کی فراہمی، غیر جانبدارانہ اور آزادانہ فیصلے، آئین کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور اعلیٰ پیشہ ورانہ اصولوں کی بجا آوری کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھیں گے اور اس سلسلہ میں عوام کی امیدوں اور خواہشات پر پورا اترنے کی ہر ممکن جستجو کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داریاں ایمانداری، محنت، لگن اور پیشہ ورانہ اصولوں کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود اور معاشرتی ترقی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اس ریاست اور پاکستان کو استحکام اور ترقی عطا فرمائے۔