وزارت پٹرولیم کے ذیلی ادارہ ’’آئی ایس جی ایس‘‘ کا آڈٹ کرانے سے انکار،آڈیٹر جنرل نے صدر کو شکایت لگادی

سیکرٹری پٹرولیم اربوں کی کرپشن کرنیوالے مبین صولت کی ڈھال بن گئے،اربوں روپے کے اخراجات کا آڈٹ ہوتے ہی کرپشن کی داستان سامنے آنے کا امکان م*کمپنی کے افسران کی لوٹ مار اور گیس منصوبوں کے نام پر کرپشن چھپانے کی کوششیں تیز

منگل 8 اکتوبر 2019 22:08

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 اکتوبر2019ء) وزارت پٹرولیم کے ذیلی ادارہ’’آئی ایس جی ایس‘‘ کے سربراہ مبین صولت نے کمپنی کے اربوں روپے کا آڈٹ کرانے سے انکار کردیا ہے جبکہ ایڈیٹر جنرل آف پاکستان جاوید جہانگیر نے اربوں روپے کے اخراجات کی مفصل رپورٹ طلب کرنے کے لئے پارلیمنٹ اور صدر مملکت عارف علوی کو شکایت درج کرا دی ہے۔

قانون کے مطابق قومی فنڈز خرچ کرنے والے تمام ادارہ سالانہ آڈٹ کرانے کے لئے اپنی تمام مالی دستاویزات اے جی پی آفس کو ارسال کرتے ہیں تاہم وزارت پٹرولیم کے ذیلی ادارہ آئی ایس جی ایس نے نہ مالی دستاویزات ارسال کی ہیں اور نہ ہی سالانہ آڈٹ کرایا ہے۔ذرائع کے مطابق اس کرپشن زدہ ادارہ کا آڈٹ مکمل اور قواعد کے مطابق کیا جائے تو اربوں روپے کی مالی بے قاعدگیاں،کرپشن اور مالی بدعنوانیاں کی نہ مٹنے والی داستان سامنے آئے گی۔

(جاری ہے)

کمپنی کے انتہائی قریبی افسران نے بتایا ہے کہ مالی معاملات کا آڈٹ نہ کرانے کا مقصد ادارہ کے اندر اربوں روپے کی کرپشن کو چھپانا ہے متعلقہ حکام اپنی کرپشن بچانے کیلئے کاغذات میں ٹمپرنگ کر رہے ہیں۔آئی ایس جی ایس میں 16 لاکھ روپے تک افسران کو ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے حالانکہ یہ لوگ متعلقہ آسامی کے لئے مطلوبہ اہلیت پر بھی نہیں اترتے۔

ماتحت کرپٹ لوگوں کو ترقی دی گئی ہے۔تاپی گیس منصوبہ کی فزیبلٹی رپورٹ پر 40ارب جبکہ ایم ڈی کی ماہانہ تنخواہ40 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔وزارت پٹرولیم کے افسران کا منہ بند کرنے کے لئے آئی ایس جی ایس میں ایک سلش اکاؤنٹ قائم کیا گیا ہے ،اس ناکام کمپنی کا ماہانہ اخراجات4کروڑ روپے سے تجاوز کرگئے ہیں جبکہ گیس منصوبوں کے نام پر وزارت پٹرولیم اور کمپنی کے افسران نے درجنوں ممالک کے دورے کرکے قومی خزانہ کا بیڑا غرق کردیا ہے۔

وزارت پٹرولیم کے تمام سیکرٹریوں کو دبئی،لندن،استنبول کے مہنگے سٹوروں پر شاپنگ کرائی جاتی ہے اوراخراجات کو متفرق اخراجات میں شامل کیا جاتا ہے۔تاپی سیکرٹریٹ دبئی میں پاکستان کی نمائندگی ایک انگریز کر رہا ہے۔مبین صولت نے اپنی قریبی ساتھی کو ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے پر تعینات کر رکھا ہے جبکہ گوادر نواب شاہ گیس پائپ لائن کے نام پر اربوں روپے کی لوٹ مار کی جاچکی ہے۔

یہ کمپنی 22سال قبل قائم ہوئی تھی لیکن آج تک ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں کیا جبکہ اربوں روپے کی لوٹ مار کر چکی ہے۔کمپنی کے سربراہ مبین صولت نے پیپلزپارٹی دور میں 460 ارب روپے جبکہ شاہد خاقان عباسی کے ساتھ 20ارب ڈالر کی کرپشن میں ملزم تھا لیکن موصوف اب ان دونوں کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر سامنے آگیا ہے اور اربوں روپے کی کرپشن کا اقرار کر چکا ہے۔

مبین صولت آئی ایس جی ایس جوائن کرنے سے قبل آئیسکو کا اکاؤنٹنٹ تھا اس سے پہلے سعودی عرب میں میکڈونلڈ میں کیشئر بھی تھا اور اب پاکستان کے اندر گزشتہ 12سالوں سے گیس منصوبے لگا رہا ہے اور اج تک ایک منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوا جبکہ منصوبوں کے نام پر بیرونی ممالک کے کئی درجن دورے کر چکا ہے۔وزارت پٹرولیم کے افسران کا تین رکنی گروہ اس کا ساتھی ہے جو اس کا نام ایگزٹ لسٹ سے نکلوا چکا ہے جبکہ نگران افسران کا مطمع نظر صرف بیرونی دورے اور عیاشی اور شاپینگ ہے۔

آڈیٹر جنرل نے اس کمپنی کے تمام مالی معاملات کی مفصل رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سیکرٹری پٹرولیم اور مشیر پٹرولیم اس کی ڈھیل بن چکے ہیں۔بیرونی دوروں کی رپورٹ منظر عام پر آنے پر وزارت پٹرولیم کے افسران نے اپنے سوشل اکاؤنٹس سے بیرونی ممالک کے دوروں کی تصاویر اتار دی ہیں۔اس حوالے سے ترجمان پٹرولیم شیرافگن اور ایم ڈی آئی ایس جی ایس مبین صولت نے مؤقف دینے سے معذرت کرلی