لاہور چیمبر آف کامرس میں ہیلتھ کیئر کے موضوع پرسیمینارکا انعقاد

جمعرات 10 اکتوبر 2019 18:49

لاہور چیمبر آف کامرس میں ہیلتھ کیئر کے موضوع پرسیمینارکا انعقاد
لاہور۔10 اکتوبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 10 اکتوبر2019ء) لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں ہیلتھ کیئر کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے ہیلتھ کیئر کے لیے خصوصی اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ سیمینار کے مہمان خصوصی بین الاقوامی ماہر طب ڈاکٹر سید نوید تھے جبکہ امجد علی جاوا اور مقامی و بین الاقوامی ماہرین طب نے سیمینار سے خطاب کیا۔

لاہور چیمبر کے صدر عرفان اقبال شیخ ،سینئر نائب صدر علی حسام اصغر، نائب صدرمیاں زاہد جاوید احمد اور لاہور چیمبر کے ایگزیکٹو کمیٹی اراکین بھی سیمینار میں موجود تھے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ویکسین کی صنعت کو فروغ دینے کے لئے کوئی سخت اقدامات نہیں۔قومی سلامتی میں ویکسین کی صنعت کا کردار بہت اہم ہے، ویکسینیشن ، صحت مند معاشرہ اور قومی سلامتی کی ضمانت ہے لہذا پاکستان کو بہتر صحت کے لئے ویکسین کی پیداوار میں خود کفیل بنانا ہوگا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان میںبچے پولیو، ڈفتھیریا، پرٹیوسس، ہیمو فیلس انفلوئنزا (ٹائپ بی- حب)، نموکوکال امراض، میننگوکوکال، خسرہ، ممپس، روبیلا، چکن پوکس، انفلوینزا، روٹا وائرس، ہیومن پیپیلوما وائرس جیسے متعدد مہلک امراض کی دلدل میں پھنس رہے ہیں ۔اور بدقسمتی سے ان کی شرح میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ ڈینگی بخار، سارس، ایبولا، زیکا وائرس، مونکی پوکس، طاعون اور لاسا بخار جیسی مہلک بیماریوں سے نمٹنے کے لئے ملک کو مشکلات کا سامنا ہے۔

فی الحال، پاکستان دنیا میںشیر خوار بچوں کی شرح اموات میں سب سے آگے ہے۔ ابتدائی بچپن کی بیماریوں، حفاظتی ٹیکوں کی کمی، ناقص غذا، جینیاتی، ایپی جینیٹک اور ماحولیاتی عوامل کی وجہ سے ہمارے بچوں کی ایک بڑی تعداد کی نشوونما رک گئی ہے۔مذکورہ بیماریوںسے بچائو کے لئے ویکسینز سب سے زیادہ مؤثر اور کم لاگت حل ہیں۔انہوں نے کہا کہ معیاری ویکسینیشن کی وجہ سے اربوں لوگ بیماریوں سے نجات حاصل کر رہے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق، ویکسین ہر سال لگ بھگ تیس لاکھ بچوں کی جان بچاتی ہیں۔ مہلک بیماری کی روک تھام کے دوسرے ممالک سے ویکسین کی درآمد پرانحصار کرنے کے بجائے ، پاکستان کو اپنی ویکسین تیار اور سپلائی کرناہوگی۔ وجوہات میں سپلائی اور کوالٹی سیکیورٹی، پیداوار کے دوارنئے اور استحکام پر قابو پانا، لاگت کا تعین، معاشرتی و اقتصادی ترقی، اور مقامی وبائی امراض اور ابھرتی ہوئی متعدی بیماریوں پر تیز ردعمل وغیرہ شامل ہیں۔

جو ممالک مدافعاتی ویکسین کا موئثر نظام رکھتے ہیںان میں بیمایوں سے نمٹنے کا بہتر تناسب پایا جاتا ہے۔ ویکسین لینے کی وجہ سے بچپن کی بیماریاں اور اموات میں خاصی کمی آرہی ہے۔ بچوں کی بڑھتی شرح اموات اور بیماریوں کا بوجھ پاکستان کی اگلی نسل پر بُرا اثر ڈالے گا۔ بیماریوںکی بڑھتی ہوئی شرح اور ان کی وجہ سے بڑھتا مالی بوجھ انسانی سرمایے، قومی معیشت، قابلیت، خود انحصاری اور استقامت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیگی۔

یہی وجہ ہے جس کے لئے حکومت کی جانب سے ویکسین کی تیاری کو فروغ دے کر محفوظ، موثر اور مستقل طور پر صحت مند ملک کی تعمیر کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشی نقطہ نظر میں، ویکسین کا شعبہ اس کے وافر استعمال کی وجہ سے تیزی سے بڑھ رہا ہے۔جلد ہی یہ دنیا کی سب سے بڑی فارما انڈسٹری میں سب سے زیادہ منافع بخش ذریعہ بننے والا ہے۔

اس وقت ویکسینز کی کل مالیت 24 بلین ڈالر کے قریب ہے جوکہ 2020 تک بڑھ کر 61 بلین ڈالر ہوجانے کی اُمید ہے ۔ لہذا پاکستان کو بھی معروف فارما کمپنیوں سے پارٹنر شپ کا آغاز کرنا چاہیے۔ کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور ملک کی صحت اور معیشت کی بہتری کے لئے اپنی خدمات کو وسعت دینے کی ترغیب دی جائے۔اس سے یقینی طور پر مہلک امراض کے خطرات کو کم کرکے معیشت کو فروغ دینے اور صحت مندمعاشرے کے قیام کی صورتحال پیدا ہو گی۔

اس کے ذریعے پاکستان نہ صرف بین الاقوامی سطح پر اپنی اچھی ساکھ قائم کر سکے گا بلکہ عالمی ادارہ صحت جس کے اہداف میں ویکسین قومی سلامتی اور فلاحی ریاست کے قیام کے لئے لازمی قرار دی گئی ہے، اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اہداف کے حصول کے لئے بھی جدوجہد کرے گا ۔