پشاور میں افغان قونصل خانے کی احتجاجاً بندش پر افسوس ہے،دفترخارجہ

افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں ایک مارکیٹ کے حوالے سے جاری بیان کو مسترد کرتے ہیں، بیان

ہفتہ 12 اکتوبر 2019 23:13

پشاور میں افغان قونصل خانے کی احتجاجاً بندش پر افسوس ہے،دفترخارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 12 اکتوبر2019ء) ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا ہے کہ پشاور میں افغان قونصل خانے کی احتجاجاً بندش پر افسوس ہے،افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں ایک مارکیٹ کے حوالے سے جاری بیان کو مسترد کرتے ہیں ہفتے کے روز پاکستان نے افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں مارکیٹ کے حوالے سے دیے گئے بیان کو مسترد کرتے ہوئے احتجاجاً قونصل خانے کی بندش پر افسوس کا اظہار کردیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘افغان وزارت خارجہ کی جانب سے پشاور میں ایک مارکیٹ کے حوالے سے جاری بیان کو مسترد کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘یہ انتہائی قابل افسوس ہے کہ معاملے کے مسخ کیا گیا اور غلط رنگ دیا گیا اور اس متعلقہ واقعات کو پیش کیا گیا۔

(جاری ہے)

ترجمان دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘یہ واضح ہو کہ مارکیٹ کا معاملہ ایک شہری اور افغانستان سے متعلق بینک کے درمیان تھا اور 1998 میں مقدمے کا فیصلہ شہری کے حق میں دیا گیا تھا۔

افغان وزارت خارجہ کے موقف کو رد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ‘مقامی انتظامیہ نے حالیہ کارروائی افغان فریق کی جانب سے اس قانونی مسئلے کو ختم کرنے کے بعد قانونی مداوا کے طور پر کی۔دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم پاکستان کے عدالتی عمل پر کسی قسم کے بیان کو مسترد کرتے ہیںترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘ہم افسوس کرتے ہیں کہ اس موقع پر پشاور میں افغان قونصل جنرل کو احتجاجی طور پر بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

افغان حکومت کی جانب سے اس اعلان پر نظر ثانی کی امید ظاہر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں امید ہے کہ اس قدم کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے گا اور ایک نجی قانونی معاملے سیدو برادر ممالک کے تعلقات میں برا اثر نہیں پڑے گا۔واضح رہے کہ افغانستان نے 11 اکتوبر کو پشاور میں اپنے قونصل خانے کو ایک مارکیٹ سے افغان پرچم ہٹائے جانے پر بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔

پشاور میں افغان قونصل جنرل محمد ہاشم نیازی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی درخواست کے باوجود پشاور پولیس اور مقامی انتظامیہ مارکیٹ میں داخل ہوئی اور مارکیٹ کے اوپر لگا ہوا افغان پرچم اتار دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری سمجھ میں نہیں آرہا کہ انتظامیہ نے پرچم کیوں اتارا، حکومت افغانستان اس فعل کی سخت مذمت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ افغان حکومت یہ معاملہ پاکستانی حکام کے ساتھ اٹھائے گی لیکن اس وقت ہم احتجاجاً اپنا کام روک کر قونصل خانہ بند کررہے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں واقع افغان مارکیٹ پر کئی عشروں سے ایک مقامی شخص نے دعویٰ کر رکھا ہے کہ یہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔دوسری جانب افغان سفارتخانے کا موقف ہے کہ یہ مارکیٹ افغان حکومت نے تقسیم ہند سے پہلے خریدی تھی اور آج تک افغان نیشنل بینک کی ملکیت ہے۔

اس کے حوالے سے افغان مارکیٹ کی انجمن تاجران کے چیئرمین نے بتایا کہ اس مارکیٹ پر سید زوار حسین نامی شخص کی جانب سے ملکیت کا دعوی کیا گیا لیکن اس شخص کو آج تک کسی نے نہیں دیکھا ان کے مطابق سید زوار کے نام پر قبضہ مافیا اس مارکیٹ پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 1971 سے اس مارکیٹ پر مذکورہ دعوے دار اور افغان حکومت کے درمیان پاکستان کی مختلف عدالتوں میں مقدمات چلے اور جنوری 2017 میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سید زوار حسین کے حق میں فیصلہ دیا تھا، جو افغان حکومت تسلیم نہیں کرتی۔

اس حوالے سے افغان سفارتخانے کے حکام کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ پاکستان کا یہ فیصلہ یک طرفہ ہے۔دوسری جانب شوکت جمال کشمیری، جن کے پاس مدعی کا مختارنامہ ہے، کہتے ہیں کہ سید زوار حسین کے والد کو یہ جگہ 1989 میں اٴْس جائیداد کے بدلے میں الاٹ کی گئی تھی جو اٴْنہوں نے پاکستان بننے کے بعد انڈیا میں چھوڑی تھی۔