سپریم کورٹ کاجو ڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف نئی آئینی درخواستوں پرفریقین کو نوٹس

سپریم کورٹ کے ججز قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے گزارشات کے نکات طلب کرلئے گئے ْججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں سیف گارڈز ہیں، وکیل جسٹس قاضی فائز کے دلائل جاری میرا مدعہ یہ ہے کہ کیسے ایک جج کے خلاف تحقیقات شروع کی جاسکتی ہیں، کل پھر ایک ایس ایچ او بھی درخواست پر کارروائی شروع کر دیگا، منیر اے ملک

منگل 15 اکتوبر 2019 17:42

سپریم کورٹ کاجو ڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف نئی آئینی درخواستوں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 اکتوبر2019ء) سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے صحافی عبدالوحید ڈوگر کی ساکھ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ ججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ سیف گارڈز ہیں جبکہ عدالت عظمیٰ نے جو ڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف نئی آئینی درخواستوں پرفریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل سے گزارشات کے نکات طلب کرلئے ۔

منگل کو عدالت عظمیٰ میں جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر دائر صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔اس دوران جسٹس عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک پیش ہوئے اور گزشتہ روز ختم رہ جانے والے دلائل کو دوبارہ دینا شروع کیا اور بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس پر نظرثانی درخواستیں مارچ میں دائر کی گئیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے بتایا کہ 10 اپریل 2019 کو اثاثہ جات ریکوری یونٹ (اے آر یو) کو ایک شخص عبدالوحید ڈوگر نے خط لکھا، جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی کسی بھی جائیداد کا ذکر نہیں کیا گیا جبکہ اس خط پر فون نمبر اور پتہ درج نہیں ہے۔منیر اے ملک نے بتایا کہ 10 مئی کو اے آر یو نے وزیرقانون کو ایک خط لکھا ، جس میں ان سے موقف مانگا گیا، اس دوران پہلی مرتبہ نام سامنے آئے۔

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اے آر یو کیا ہے، یہ وزیراعظم سیکریٹریٹ میں کیوں ہی ، ساتھ ہی جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ آپ کے مطابق تحقیقات اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی وجہ سے شروع ہوئیں، کیا آپ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت عدالت کو بتا سکتے ہیں، جس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس یونٹ میں کوئی بھی سول سرونٹ نہیں ہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کرکے دستاویز سامنے رکھیں اور الزام لگائے کہ جسٹس عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے اور انہوں نے اپنے اثاثوں میں انہیں ظاہر نہیں کیا۔منیر اے ملک نے کہاکہ وحید ڈوگر نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں، ساتھ ہی انہوں نے اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو بتایا کہ کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن انہوں نے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دئیے۔

دوران سماعت منیر اے ملک نے کہا کہ اے آر یو نے کہا کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈپارٹمنٹ کی ایک نقل فراہم کی ہے، 8 مئی کو اس یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کی بارے میں ذکر ہے، 10مئی کو ایف آئی اے کی ریکوری یونٹ والوں سے ملاقات ہوئی۔منیر اے ملک نے کہا کہ اس ملاقات میں درخواست گزار کی اہلیہ کا نام اور اسپین کی شہریت سامنے آئی، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ویزا درخواست کی وجہ سے یہ نام سامنے آیا، جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کو 5 سال کا ویزہ دیا گیا۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کا نام ڈوگر کو کیسے پتہ چلا میرا مدعہ یہ ہے کہ کیسے ایک جج کے خلاف تحقیقات شروع کی جاسکتی ہیں، کل پھر ایک ایس ایچ او بھی درخواست پر کارروائی شروع کر دیگا۔انہوں نے کہا کہ ججز کے خلاف تحقیقات سے متعلق قانون میں کچھ سیف گارڈز ہیں، اس پر جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ ججز کے حوالے سے 2 فورمز ہیں جو رائے دے سکتے ہیں۔

عدالتی ریمارکس پر جسٹس منیر اے ملک نے کہا کہ شکایت وصول کرنا، ثبوت اکٹھا کرنا اور ریفرنس فائل کرنا مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے ہوئے ہیں، اس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ بغیر اجازت کے جج کے خلاف تحقیقات شروع کی گئیں۔بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے تمام معلومات فراہم کیں۔

اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ وحید ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہیںجس پر جسٹس مقبول باقر نے سوال کیا کہ وحید ڈوگر کو کیسے معلوم ہوا کہ جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کا یورپین نام کیا ہی ہوسکتا ہے وحید ڈوگر کے پاس مافوق الفطرت طاقتیں ہوں۔اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آپ آن لائن پراپرٹی لندن لینڈ اتھارٹی سے لے سکتے ہیں، اس پر منیر اے ملک نے جواب دیا کہ صرف پلاٹ کا پتہ لگ سکتا ہے، کس کے نام پر ہے یہ پتہ نہیں لگ سکتا۔

منیر اے ملک کے جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ پھر کیسے اس پراپرٹی کے بارے میں معلومات ملیں اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ یہ سب درخواست گزار اور ان کے خاندان کا پیچھا کرکے معلومات لی گئیں۔منیر اے ملک نے کہا کہ 27 اکتوبر 2018 کو نیویارک ٹائمز کی خبر ہے، جس میں صحافی پر حملے کا ذکر ہے جبکہ صحافی احمد نورانی کی بی بی سی کی رپورٹ بھی آئی۔

اس پر جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا احمد نورانی نے حملہ آوروں کے بارے میں بتایا تھا کہ حملہ کس نے کیا کیا کوئی ادارہ تھا، جس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ڈوگر پراکسی ہے، اس کی منطق سمجھ نہیں آئی، اس پر منیر اے ملک نے کہا کہ ڈوگر ایک بااعتماد آدمی نہیں، اس کی ساکھ آپ کو بتا رہا ہوں۔

دوران سماعت وحید ڈوگر روسٹم پر آئے اور منیر اے ملک کو کہا کہ میں ڈوگر ہوں، جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے پوچھا کہ یہ کون ہے جو روسٹرم پر موجود ہے، اس پر منیراے ملک نے بتایا کہ یہ وحید ڈوگر ہیں۔وکیل کے جواب پر جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ آپ کو کیسے علم کہ یہ وحید ڈوگر ہی اس پر منیر اے ملک نے بتایا کہ ڈوگر نے مجھے کان میں آکر کہا ہے کہ یہ ڈوگر ہے۔

اس موقع پر جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا جسٹس عیسیٰ نے اپنی اہلیہ کو کبھی رقم تحفے میں دی جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ میں معلوم کرکے بتاسکتا ہوں، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس سوال کا جواب معلوم کرکے رہیں گے۔بعد ازاں عدالت نے جسٹس عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو چیلنج کرنے کے لئے دائر نئی آئینی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔ عدالت عظمیٰ نے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے وکیل سے گزارشات کے نکات بھی طلب کرلیے اور مذکورہ معاملے کو بدھ کی صبح ساڑھے 11 تک ملتوی کردیا۔