بابری مسجد کیس،بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، سترہ نومبر سے قبل سنائے جانے کاامکان

بھارتی عدالت عظمیٰ کی فریقین کو تین دن کے اندر اپنا تحریری بیان دینے اور تحفظات سے آگاہ کرنے کی ہدایت

بدھ 16 اکتوبر 2019 17:07

بابری مسجد کیس،بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا، سترہ نومبر ..
نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2019ء) سپریم کورٹ نے بابری مسجد اور رام جنم بھومی کے درمیان تنازع کے حوالے سے چل رہے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے اور اس کیس کا فیصلہ 17نومبر سے قبل سنائے جانے کا امکان ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنگن گگوئی کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے دلائل کو نمٹاتے ہوئے فریقین کو تین دن کے اندر اپنا تحریری بیان دینے اور تحفظات سے آگاہ کرنے کی ہدایت کی۔

یہ بھارت کی تاریخ کا دوسرا طویل ترین کیس ہے جس کی 40سماعتیں ہو چکی ہیں جس کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔اس سے قبل طویل ترین مقدمہ 1972 کا کیساونندا بھارتی کیس تھا جہاں 13 ججوں پر مشتمل بینچ نے پارلیمنٹ کی طاقت کے حوالے سے فیصلہ دینے سے قبل مقدمے کی 68دن تک سماعت کی تھی۔

(جاری ہے)

بدھ کو چیف جسٹس نے بھارتی سپریم کورٹ میں ہندو مہاسبھا پارٹی کی جانب سے دلائل کے لیے مزید مہلت سے متعلق دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بس بہت ہوگیا۔

بھارتی چیف جسٹس دہائیوں سے زیرِ سماعت کیس کے لیے تشکیل کردہ 5 رکنی بینچ کی سربراہی کررہے ہیں کہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کیا جانا چاہیے یا نہیں۔بھارت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر سے متعلق کیس کی 40ویں سماعت کا آغاز ہوا ہے۔اس حوالے سے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 3 رکنی آیودھیا ثالثی پینل کی جانب سے مذاکرات کے دوسرے مرحلے کی رپورٹ جمع کروائے جانے کا امکان ہے۔

علاوہ ازیں رپورٹ میں کہا گیا کہ بھارت کی سپریم کورٹ کی جانب سے 17 نومبر کو چیف جسٹس راجن گوگوئی کی مدت ملازمت مکمل ہونے سے قبل فیصلہ سنائے جانے کا امکان ہے۔خیال رہے کہ 2 روز قبل بھارتی حکام نے سپریم کورٹ میں حتمی دلائل کے آغاز پر عوامی اجتماعات پر پابندی کردی تھی۔رواں برس بھارت کی سپریم کورٹ نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان بابری مسجد اور رام مندر کی زمین کا تنازع حل کرنے کے لیے ثالثی ٹیم تشکیل دی تھی۔

واضح رہے کہ بھارت کی عدالت عظمیٰ میں 2010 کے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواستیں زیر سماعت ہیں۔ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔یاد رہے کہ دسمبر 1992 میں ایودھیا - بابری مسجد کا تنازع اس وقت پرتشدد صورت اختیار کرگیا تھا جب راشٹریہ سویم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے حمایت یافتہ مشتعل ہجوم نے بابری مسجد کو شہید کردیا تھا۔گزشتہ 3 دہائیوں میں کشمیر میں بھارت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے ہزاروں کشمیری جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ ایودھیا میں 500 سال قدیم مسجد کو شہید کرنے کی وجہ سے ہونے والے فسادات میں 2 ہزار افراد قتل کردیے گئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔