سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کا اجلاس

مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال ،آزاد کشمیر میں آنیوالے زلزلے سے ہونیوالے نقصانات ، ریلیف اور بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا بھارت کی طرف سے شہری آبادی کو نشانہ بنانابین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے، سینیٹر رحمن ملک کشمیر کا اصل ایشو استصواب رائے اور ریفرینڈم ہے ،مسئلے کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے، پروفیسر ساجد میر

بدھ 16 اکتوبر 2019 23:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2019ء) اراکین سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان نے کہاہے کہ بھارت کی طرف سے شہری آبادی کو نشانہ بنانابین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے،پاکستان کی وزارت خارجہ امور آج تک ہونے والی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں نقصانات کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کرکے اقوام متحدہ میں اس کا کلیم کر ے اور بین الاقوامی عدالت میں مسئلے کو اٹھائے ،کشمیر کا اصل ایشو استصواب رائے اور ریفرینڈم ہے اس مسئلے کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان کا اجلاس بدھ کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔

(جاری ہے)

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر اور لائن آف کنٹرول کی موجودہ صورتحال کے علاوہ آزاد کشمیر میں آنے والے حالیہ زلزلے کے نتیجے میں نقصانات ، ریلیف اور بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز رحمان ملک ، نگہت مرزا ، لیفٹینٹ جرنل (ر) صلاح الدین ترمذی ، شاہین خالد بٹ ، سراج الحق اور نجمہ حمید کے علاوہ سیکرٹری امور کشمیر و گلگت بلتستان طارق پاشا ،جوائنٹ سیکرٹری وزارت امور کشمیر ، این ڈی ایم اے حکام ، سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو اے جے کے اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ رکن کمیٹی سینیٹرر حمان ملک نے کہا کہ بھارت کنٹرول لائن کی آئے روز خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے ۔

بھارت کی طرف سے بلااشتعال فائرنگ سے اب تک ہزاروں عام شہریوں کی شہادتیں ہوئی ہیں۔بھارت کی طرف سے شہری آبادی کو نشانہ بنانابین الاقوامی انسانی حقوق اور قوانین کی خلاف ورزی ہے۔بھارتی افواج مسلسل شہری آبادی کو بھاری اسلحہ سے نشانہ بنا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ نے 1949 میں ایک کمیشن بنایا تھا جس میں انڈیا اور پاکستان شامل تھااور سیز فائر کے حوالے سے ایک معاہدہ کیا گیا جس پر اقوام متحدہ سمیت پاکستان اور انڈیا نے دستخط بھی کیے تھے اس پر عملدرآمد کرانا اقوام متحدہ کی ذمہ داری تھی ۔

معاہدے کے مطابق دونوں ممالک کی افواج کا بارڈر لائن سے 500 فٹ دور رہنا اور بارڈر پر فوج کو مضبوط نہ کرنا شامل تھا مگر بھارت روز اول سے ہی اس معاہدے کی خلاف ورزیوں میں سرگرم عمل ہے اور مقبوضہ کشمیر میں9 لاکھ فوج بھی کھڑی کر دی ہے ۔ پاکستان کی وزارت خارجہ امور آج تک ہونے والی خلاف ورزیوں کے نتیجے میں نقصانات کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کرکے اقوام متحدہ میں اس کا کلیم کر ے اور بین الاقوامی عدالت میں مسئلے کو اٹھائے ۔

ہمیں دنیا کو آگاہ کرنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونے والے معاہدے کی انڈیا کس طرح دھجیاں اڑا رہا ہے ۔ہمیں یو این میں شکایت کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ ان خلاف ورزیوں کا جائزہ لینے کیلئے ایک کمیشن بنا کر انکوائری رپورٹ تیا ر کرے ۔انہوں نے اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ایک قرارداد بھی پیش کی ۔ قرارداد میںبھارت کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ اور کنڑول لائن پر معاہدے کی مسلسل خلاف ورزیوں پر شدید احتجاج کیا گیا ۔

بھارت لائن آف کنٹرول پر اقوام متحدہ کے قوانین و دونوں ممالک کے مابین معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور مسلسل جولائی 1949 سے اقوام متحدہ کے زیرنگرانی دونوں ممالک کے مابین معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔قرار داد میں کہا گیا کہ حکومت پاکستان بھارت کیطرف سے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کیخلاف اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں جائے اور اقوام متحدہ اس حوالے سے ایک سپیشل کمیشن قائم کرے۔

حکومت پاکستان اقوام متحدہ سے لائن آف کنٹرول پر فوجی مبصرین کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کرے اورحکومت پاکستان بھارت کیخلاف لائن آف کنٹرول پر بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں جانی و مالی نقصانات پر بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ درج کرے۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ کشمیر کا اصل ایشو استصواب رائے اور ریفرینڈم ہے اس مسئلے کا حل کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے ۔

مسئلہ کشمیر پرپاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں ، پوری قوم اور ادارے یک زبان ہیں کوئی اختلاف رائے یا دوسری رائے نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اقوام عالم مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلے کے اصل کی طرف اقدام لیے اور بھارت کو مجبور کیا جائے کہ وہ اقوام متحدہ کی قرار دادوںکے مطابق اس مسئلے کا حل نکالنے ۔

قائمہ کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی قرارداد کو متفقہ طور پر پاس کرتی ہے اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کرتی کہ 1949 کے معاہدے پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں آزاد کشمیر میںآنے والے حالیہ زلزلے کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات ، ریلیف اور بحالی کیلئے اٹھائے گئے اقدامات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ24 ستمبر2019 کو آنے والے زلزلے کی شدت 5.8 تھی جس کے بعد 2 بڑے آفٹر شاکس 26 ستمبراور6 اکتوبر کو آئے ۔

زلزلے کے نتیجے میں 40 اموات اور ایک ہزار افراد زخمی ہوئے ۔ کل 65464 عمارتوں کو نقصانات ہوئے جس میں58000 میر پور اور 6 ہزار بھمبر میں ہیں ۔ میر پور میں28 سو گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے جبکہ بھمبر میں100 گھر ، زلزلے کے نتیجے میں 3.29 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ۔جانی نقصان کی نسبت مالی نقصان بہت زیادہ ہوا ۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ اپر جہلم نہر دو جگہوں سے متاثر ہوئی ، بجلی اور مواصلات کا نظام بھی خراب ہوا ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ زلزلے کے نتیجے میں 10 سرکاری سکول ،2 کالجز ، ایک ہاسٹل مکمل طور پر تباہ ہوا جبکہ27 سکول ، 9 کالج اور ایک ہاسٹل جزوی متاثر ہوا ۔ زلزلے کے نتیجے میں فوری طور پر ریلیف کا کام شروع کر دیا گیا جس میں ریسکیو 1122 ،منگلا اورجہلم کے آرمی یونٹس ، این ڈی ایم اے،ایس ڈی ایم اے، پی ڈی ایم اے ،سول انتظامیہ ، سول سوسائٹیز اور این جی اوز شامل تھیں ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ سینٹر سمیت ڈویژنل اور ضلعی سطح پر کنڑول روم قائم کیے گئے ۔ وزیراعظم آزاد کشمیر فوری طور پر میر پور پہنچے اور ریلیف کے کاموں کی مانیٹرنگ کی ۔اپر جہلم نہر کو فوری طور پر بند کیا گیا ۔ تمام زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا ۔ 90 فیصد علاقوں میں24 گھنٹوں کے اندر بجلی سپلائی شروع کر دی گئی اور جاتلاں روڈ کو بھی24 گھنٹوں کے اندر قابل استعمال بنا دیا گیا ۔

کمیٹی کو بتایا گیا کہ کرائسز منیجمنٹ سیل کمشنر آفس میں قائم کیا گیا اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں 7 مختلف زونز میں تقسیم کر کے امدادی کام سرانجام دیئے گئے ۔ایک ایپلیکیشن DARMIS سسٹم بنایا گیا جس میں نقصانات کا جائزہ لینے کیلئے ہر گھر اور جگہ کی معلومات حاصل کی گئیں ۔سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ الخدمت فائونڈیشن زلزلے سے اب تک وہاں امدادی کام کر رہی ہے اس کے علاوہ دیگر تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں ان کی خدمات کو بھی شامل کیا جاتا ۔

سینیٹر لیفٹنٹ جرنل (ر) صلاح الدین ترمذی نے کہا کہ 2005 کے زلزلے کے بحالی اورتعمیرات کے منصوبے ابھی تک مکمل نہیں کیے گئے ۔ بالا کوٹ شہر بھی ابھی تک نہیں بن سکا ۔بیرون ممالک سے بے شمار امداد بھی آئی ۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے جو 2005 کے زلزلے کے بعد ملنے والے امداد کا آڈٹ کرایا جائے ۔جو اربوں روپے زلزلے کے بعد پاکستان کو ملے تھے کہاں سے آئے اور کہاں خرچ ہوئے۔

بالاکوٹ و دیگر علاقوں میں نئے ماڈل شہر بنانے تھے مگر زلزلہ زدگان اب تک بے گھر ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی جائے جو زلزلہ زدگا ن کیلئے امداد اور بحالی کے کاموں پر رپورٹ تیار کرے ۔ سیکرٹری وزارت امور کشمیرو گلگت بلتستان نے کہا کہ نیو بالا کوٹ سٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ نے معاملہ اٹھایا تھا اس کی رپورٹ کا جائزہ بھی لیا جاسکتا ہے ۔

اراکین کمیٹی نے کہا کہ حالیہ زلزلے کے نتیجے میں تباہ ہونے والے گھروں کے متاثرین کو شدید سردیوں سے پہلے ریلیف یقینی بنایا جائے ۔ اس کیلئے حکومت پاکستان اور دیگر تنظیمیں حکومت آزاد کشمیر کی مدد کریں ۔کمیٹی نے ہدایت کی کہ متاثرین کو لکڑی یا سٹیل کے ایسے گھر بنا کر فوری دیئے جائیں جو زلزلے کو برداشت کر سکیں اوربحالی کے کام کو بہت تیزی سے کیا جائے کیونکہ سردی کا موسم قریب ہے جس سے زلزلہ متاثرین کی تکالیف میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔

سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ ایسے گھر تعمیر کیے جائیں جس میں زلزلے کے نتیجے میں کم سے کم نقصان ہو ۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ این ڈی ایم اے کے قانون میں ترمیم لائی جائے جس میں پورے ملک کیلئے زلزلہ پروف عمارتوں کی تعمیر یقینی بنائے جائے اور عوام میں شعور آگاہی مہم بھی چلائی جائے ۔کمیٹی کو بتایا گیا ملک بھر میں بلڈنگ کوڈ پر لازمی طور پر عملدرآمد کرانے سے معاملات میں بہتری آ سکتی ہے ۔سینیٹر شاہین خالد بٹ نے کہا کہ ہمیں اپنے سسٹم کو مزید موثر بنانا ہوگا جس میں قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے جلد سے جلد ریلیف کی فراہمی اور کم سے کم نقصانات ہو سکیں ۔