مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف مولانا کے مارچ سے متعلق تجویز رد کرنے پر احتجاجاً بڑے بھائی سے ملاقات نہیں کر رہے

شہباز شریف اس وقت اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کرنے سے گریزاں ہیں

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 18 اکتوبر 2019 11:29

مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف مولانا کے مارچ سے متعلق تجویز رد کرنے پر ..
لاہور (اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 18 اکتوبر 2019ء) : مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف پارٹی کے تاحیات قائد اور اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کرنے سے مسلسل گریزاں نظر آ رہے ہیں۔ اس حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق شہباز شریف کے بڑے بھائی سے ملاقات سے گریزاں ہونے کی وجہ نواز شریف صاحب کی جانب سے ان کی مسترد کی گئی تجویز ہے جس کی وجہ سے وہ احتجاجاً اپنے بڑے بھائی سے ملاقات نہیں کر رہے اور کمر میں تکلیف کا بہانہ بنا کر ملاقات کو مسلسل مؤخر کر رہے ہیں جبکہ اسی کمر درد کے ساتھ انہوں نے جیل میں قید اپنے صاحبزادے حمزہ شہباز سے ملاقات کی تھی۔

شہباز شریف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 31 اکتوبر کو ہونے والے ''آزادی مارچ'' میں شرکت کے حوالے سے اپنی رائے مسترد پر ہونے پر مبینہ طور پر برہم ہیں۔

(جاری ہے)

جس کے باعث یہ قیاس آرائیاں جنم لے چکی ہیں کہ وہ جیل میں قید اپنے بھائی اور پارٹی قائد سے جلد ملاقات نہیں کرنا چاہتے۔ خیال رہے کہ جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تو نواز شریف نے شہباز شریف کو مولانا فضل الرحمان کا بھرپور ساتھ دینے کی ہدایت کی۔

شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی اور پارٹی قائد کو آزادی مارچ کے حوالے سے اپنے خدشات سے آگاہ کیا اور تجویز پیش کی کہ اس مارچ میں شرکت نہ کی جائے لیکن نواز شریف نے شہباز شریف کی یہ تجویز مسترد کر دی تھی۔ قبل ازیں مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر کیپٹن (ر) صفدر اور ن لیگ کے کئی رہنما موجود تھے لیکن نواز شریف کے اپنے بھائی شہباز شریف آج بھی احتساب عدالت سے غائب رہے اور اپنے بھائی سے اظہار یکجہتی کے لیے نہیں آئے۔

شہباز شریف کی احتساب عدالت میں عدم موجودگی نے کئی سوالات کھڑے کر دئے تھے۔ اس کے علاوہ کمر درد کا بہانہ بنا کر نواز شریف سے ملاقات نہ کرنے پر بھی شہباز شریف کے بارے میں کئی قیاس آرائیوں نے جنم لے لیا تھا۔ اس حوالے سے کچھ اطلاعات یہ بھی موصول ہوئیں کہ شہباز شریف فی الحال عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ کسی صورت بھی مزاحمتی تحریک میں مسلم لیگ ن کی قیادت کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان سے ملنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور وہ اپنے آپ کو سیاست سے کنارہ کش کرنے کا اعلان بھی کرسکتے ہیں۔