فوڈ سیکورٹی کے لئے قانون سازی کی جائے، سینئروائس چیئرمین بزنس مین پینل

ملک کے طول و عرض میں بھوک بڑھ رہی ہے،قابو نہ پایا تو بھاری سیاسی و اقتصادی قیمت ادا کرنا پڑے گی، میاں زاہدحسین

جمعہ 18 اکتوبر 2019 17:48

فوڈ سیکورٹی کے لئے قانون سازی کی جائے، سینئروائس چیئرمین بزنس مین پینل
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب ملک کے طول و عرض میں بھوک بڑھ رہی ہے اوراگر بھوک پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تواس کی بھاری سیاسی و اقتصادی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی فوڈ سیکورٹی کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دینے کے لئے قانون سازی کی جائے تاکہ آج کے صحت مند بچے کل معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ پاکستان زرعی ملک ہے مگر اسکے باوجود فوڈ سیکورٹی کا سنگین مسئلہ موجود ہے کیونکہ اشیائے خورد و نوش کی کوئی کمی نہیں مگر انکی قیمت زیادہ ہے جسکی وجہ سے غریب غذائیت حاصل نہیں کر پاتے۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ یونیسیف نے انکشاف کیا ہے کہ دنیا بھر میں5 سال سے کم عمر کے بچوں میں سے نصف بھوک کا شکار ہیں ۔مغربی ممالک میں جہاں بچوں کی بڑی تعداد موٹاپے کا شکار ہو رہی ہے وہیں ترقی پذیر ممالک میں انھیں مناسب خوراک میسر نہیں ہے جس سے انکی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔پاکستان ان 7 ممالک میں شامل ہے جہاں غذائیت کے مسائل کا شکار ہونیوالے بچوں کی اکثریت ہے۔

یہاں بچوں کی اموات کی شرح دنیا میںسب سے زیادہ اور زچگی میں اموات کا تناسب بھی بہت زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ بھوک مٹانے کے لئے اقتصادی مواقع کی فراہمی ،دولت کی مساوی تقسیم، زرعی اجناس کی قیمتوں میں کمی اور سرپلس پیداوار کو ضائع کرنے کے بجائے غریبوں تک پہنچانا ضروری ہے تاکہ ملک میں صحت عامہ کے مسائل حل کئے جا سکیں۔اس وقت پاکستان 119 ممالک کی درجہ بندی میں 106 نمبر پر ہے جبکہ بھارت سے اس تین درجہ بہتر ہے۔

دنیا کے درجنوں ممالک میں بھوک پر تحقیق کے دوران یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ لنگر بھوک مٹانے کا کارآمد نسخہ نہیں ہے ۔یہ بھوک کا عارضی حل ہے جس سے سفید پوش ضرورت کے باوجود توہین کے خوف سے ان سے دور رہتے ہیں اور صرف آخری درجہ کے غریب ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اسی وجہ سے بہت سے ممالک جو بھوک ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں انھوں نے لنگروں کے بجائے ہنر کی تربیت ، روزگار کی فراہمی اور دیگر اقتصا دی اقدامات کئے جو نتیجہ خیز رہے ہیں۔برازیل میں 2003 میں بھوک کے خاتمہ کا پروگرام شروع کیا گیا جس سے دو کروڑ افراد غربت کی دلدل سے باہر نکل آئے جس کا مطالعہ پاکستان کے لئے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔