لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات کے نتائج کو چیلنج کریں گے،وزیر اطلاعات و محنت سندھ

پیپلز پارٹی کو سیاسی جماعتوں سے مقابلے کے ساتھ ساتھ دیگر قوتوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے،سعید غنی

جمعہ 18 اکتوبر 2019 17:58

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 اکتوبر2019ء) وزیر اطلاعات و محنت سندھ اور پاکستان پیپلزپارٹی کراچی ڈویڑن کے صدرسعید غنی نے کہا ہے کہ سانحہ 18 اکتوبر کے شہداء کی 12 ویں برسی پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سانحہ 18 اکتوبر اور 27 دسمبر ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات میں سلیکٹیڈ حکومت کے پس پشت سلیکٹر نے دھاندلی کے ذریعے ہمارے امیدوار کو ناکام کروایا اور اس کے شواہد بھی موجود ہیں اور ہم اس انتخابات کے نتائج کو چیلنج بھی کریں گے۔

سانحہ 18 اکتوبر میں شہدائ کے ورثا کی بجائے سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے اس سانحہ کے خلاف سازش کی گئی اگر سانحہ 18 اکتوبر کے ملزمان بے نقاب ہوجاتے تو 27دسمبر کے ملزمان بھی بے نقاب ہوجاتے۔

(جاری ہے)

عدلیہ نے جن جن ملزمان کو چھوڑا ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اس کا نوٹس لے اور ان کو گرفتار کیا جائے اور پرویز مشرف کو بھی عدلیہ کے کٹہرے میں لایا جائے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز سانحہ 18 اکتوبر 2007 کے شہداء کی قبروں پر اعظم بستی قبرستان میں حاضری اور بعد ازاں یادگار شہداء کارساز پر حاضری کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے نائب صدر راشد ربانی، جنرل سیکرٹری وقار مہدی، کراچی ڈویڑن کے جنرل سیکرٹری جاوید ناگوری، اقبال ساندھ، خلیل ہوت، لالہ رحیم، محمد آصف خان، اسلم سموں، فرحان غنی، لیاقت آسکانی، نجمی عالم اور دیگر بھی موجود تھے۔

صوبائی وزیر نے اعظم بستی قبرستان میں سانحہ 18 اکتوبر کے 7 اور چنیسر گوٹھ قبرستان میں 1 شہید کی قبر پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم 12 سال سے سانحہ کارساز کے شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے یہاں آتے ہیں اور ہمارے ساتھ ان شہداء کے اہل خانہ بھی یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سانحہ 18 اکتوبر اس ملک نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا دہشتگردی کا سانحہ ہے، جہاں ایک پرامن سیاسی جماعت کو اپنی قائد کی آمد پر دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا اور اس سانحہ میں ہمارے 177 جانثاران بینظیر اور جیالے شہید جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔

سعید غنی نے کہا کہ اس سانحہ سے قبل جب بینظیر بھٹو کی پاکستان آمد کا اعلان ہوا اس وقت پورے ملک کے عوام کو اس بات کا خدشہ تھا کہ ان کے جلوس یا جلسہ کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں عوام کے سمندر نے کراچی میں ان کے استقبال میں حصہ لیا لیکن اس وقت کے حکمران بالخصوص ایک آمر پرویز مشرف اور اس کے حواریوں نے سیکورٹی کے کوئی خاطر خواہ بندوبست نہیں کئے۔

انہوں نے کہا کہ اس سانحہ کے شہداء کے ورثاء کی مدعیت میں مقدمے کے اندراج کے ہمارے مطالبات کے باوجود انہی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا، جس کو ہم اس سانحہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ ظاہر کررہے تھے۔بعد ازاں صوبائی وزیر اور دیگر پارٹی کے رہنماؤں نے شارع فیصل پر کارساز کے مقام پر جہاں سانحہ کارساز رونما ہوا تھا وہاں قائم یادگار شہدائ پر حاضری دی اور یادگار پر پھول چڑھائے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر اطلاعات سندھ اور پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی نے کہا کہ ہم سانحہ 18 اکتوبر اور 27 دسمبر کو ایک ہی سلسلے کی کڑی تصورکرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جو طاقتیں، گروہ، سوچ اور تنظیم سانحہ 18 اکتوبر میں ملوث تھی وہی 27 دسمبر کے سانحہ میں ملوث تھی۔ انہوں نے کہا کہ اگر سانحہ 18 اکتوبر کی شفاف تحقیقات کرائی جاتی اور ہمارے مطالبے پر اس سانحہ کے شہداء کے ورثاء کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جاتا اور اس میں ملوث پرویز مشرف اور دیگر کوگرفتار کیا جاتا تو سانحہ 27 دسمبر کے اسباب بھی دنیا کے سامنے آجاتے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ عرصے قبل عدلیہ نے ایف آئی آر میں موجود تمام ملزمان کو چھوڑ دیا جبکہ پرویز مشرف کو عدلیہ کے سامنے پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی اس کے لئے کوئی خاص اقدامات ان کو عدالت میں لانے کے لئے کئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایک بار پھر اعلیٰ عدلیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان تمام رہا کئے جائے والوں کو گرفتار کیا جائے اور پرویز مشرف کو بھی کٹہرے میں لایا جائے۔

ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ لاڑکانہ کے ضمنی انتخابات میں سندھ میں ہماری حکومت ہونے کے باوجود ہم نے کسی قسم کی کوئی سرکاری مشینری کا استعمال نہیں کیا اور سلیکٹیڈ حکومت کے سلیکٹرز نے پولنگ کے دوران اور نتائج کے دوران بھی دھاندلی کروائی اور اس کے شواہد خود ہمارے امیدوار جمیل سومرو صبح سے ہی میڈیا پر دیتے رہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سازش کے تحت خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر انتخابی عمل ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد شروع کیا گیا اور جب ہم نے ان پولنگ اسٹیشنوں پر وقت بڑھانے کی درخواست دی تو اسے مسترد کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جمیل سومرو کو امیدوار ہونے کے باوجود پولنگ اسٹیشنوں کے اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا اور انتخابات کے بعد ڈی آر او آفس میں جب ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا تو اس وقت بھی ڈیڑھ سے دو گھنٹے تک ان کو اس میں شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ سعید غنی نے کہا کہ انتخابی نتائج جب آنا شروع ہوئے تو پیپلز پارٹی 40 سے 45 پولنگ اسٹیشنوں پر جیت رہی تھی تاہم بعد میں ڈی آر او آفس میں ہمارے امیدوار کو روک کر بدترین دھاندلی کی گئی۔

سعید غنی نے کہا کہ ہم اس انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتے اور اس کو چیلنج کریں گے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک کم نہیں بلکہ گذشتہ دو انتخابات کے مقابلے 5 ہزار سے زائد ووٹوں سے بڑھا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی الیکشن لڑتی ہے تو اسے دیگر سیاسی جماعتوں سے مقابلے کے ساتھ ساتھ دیگر قوتوں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور یہ دیگر قوتیں کون ہیں اس کا علم ہر باشعور پاکستانی کو اچھی طرح ہے۔