ٹیکسٹائل ملز کی خریداری بڑھنے کے باعث روئی کے بھائومیں فی من 300 روپے تک کا اضافہ

کپاس کی پیداوار میں تشویشناک کمی سے کپاس کے کاروبار سے منسلک تمام سیکٹرز متاثر،ایف بی آرکے سیلز ٹیکس کے نفاذ کے سبب مارکیٹوں میں شدید مالی بحران

ہفتہ 19 اکتوبر 2019 18:39

ٹیکسٹائل ملز کی خریداری بڑھنے کے باعث روئی کے بھائومیں فی من 300 روپے ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2019ء) مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتہ کے دوران ٹیکسٹائل و اسپننگ ملز کی جانب سے روئی کی خریداری میں اضافہ اور پھٹی کی رسد بھی بڑھنے کی وجہ سے کاروباری حجم بڑھ گیا جبکہ اچھی کوالٹی کی روئی کے بھا ئومیں100تا300روپے کا اضافہ ہوا پھٹی کابھائوبھی بڑھ گیا صوبہ سندھ میں روئی کا بھائوکوالٹی کے حساب سے فی من7800 تا 9150 روپے رہا۔

پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 3000 تا 4400 روپے رہا۔صوبہ پنجاب میں روئی کا بھائو فی من 8750 تا 9150 روپے رہا۔پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 3800 تا 4400 روپے رہا دونوں صوبوں میں بنولہ، کھل اور تیل کے بھائو میں بھی نسبتاً اضافہ کا رجحان برقرار رہا۔ صوبہ بلوچستان میں روئی کا بھائو فی من 8750 تا 9300 روپے رہا پھٹی کا بھائو فی 40 کلو 4200 تا 4700 روپے رہا۔

(جاری ہے)

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ فی من 150 روپے کے اضافہ کے ساتھ اسپاٹ ریٹ فی من 8950 روپے کے بھائو پر بند کیا۔

کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چئیرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ اس سال کپاس پیدا کرنے والے بیشتر علاقوں میں بے وقتی طوفانی بارش اور سخت تپش کے بعد کئی اقسام کے جراثیم وائرس سنڈی سفید مکھی گلابی سنڈی وغیرہ نے کھڑی فصل پر زبردست حملہ کر دیا جس کے باعث فصل کو ناتلافی نقصان ہوا کئی علاقوں میں کاشتکار دلبرداشتہ ہوکر فصل قبل از وقت کاٹ دی دوسری جانب ناقص بیج اور جعلی ادویات کے سبب فصل زبردست متاثر ہوئی کپاس فی ایکڑ پیداوار میں کمی کے علاوہ جننگ میں بھی Yield بہت کم ہونے کی وجہ سے کاشتکاروں کے علاوہ جنرز بھی متاثر ہوئے ہیں اس سال کئی جنرز دلبرداشتہ ہوئے اور سرے سے جننگ فیکٹریاں ہی نہیں چلائیں اور کئی جنرز نے نقصان کی وجہ سے کچھ گانٹھیں نکال کر جننگ فیکٹریاں بند کردیں۔

کپاس کے کئی کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ تباہ ہوگئے انہوں نے آئندہ سیزن میں کپاس کی فصل کاشت کرنے سے اجتناب برتنے کا عزم کیا ہوا ہے علاوہ ازیں کھاد کا کاروبار کرنے والے بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کپاس کے بیج اور کھاد ادھار دیئے تھے ان کی رقم ملنا مشکل ہوگئی ہے کاشتکار شدید بحرانی کیفیت میں مبتلا ہیں دھاتوں میں شدید مالی بحران پایا جاتا ہے۔

کپاس کے علاوہ گندم، مرچ، مکئی، چاول وغیرہ کی پیداوار ہدف سے کم ہوئی ہے جس کے باعث ملک بھر کی کاشتکار برادری شدید اضطراب میں مبتلا ہیں۔ملک میں کپاس کی فصل کم ہونے کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز کے بڑے گروپ بیرون ممالک سے روئی کے درآمدی معاہدے کرکے اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں اس سال بینکنگ انٹرسٹ ریٹ میں اضافہ اور روئی پر 10 فیصد اور کاٹن یارن پر 7 فیصد سیلز ٹیکس وغیرہ اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے ٹیکسٹائل ملز زبردست مالی بحران کا شکار ہو رہے ہیں جو آئندہ دنوں میں مزید سنگین ہونے کا خدشہ بتایاجارہا ہے کیونکہ ایف بی آرسیلز ٹیکس ریفنڈ وعدے کے باوجود تاخیر سے ادا کر رہا ہے اس وجہ سے ٹیکسٹائل اسپنرز روئی کا اسٹاک بھی طویل مدت تک نہیں کر سکیں گے اسی طرح اخراجات میں اضافہ کے سبب جنرز بھی روئی کا اسٹاک کرنے سے اجتناب برت رہے ہیں۔

نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن مارکیٹوں میں روئی کے بھائو میں مجموعی طور پر استحکام رہا گوکہ نیویارک کاٹن مارکیٹ میں اضافہ کارجحان رہا امریکہ اور چین کے مابین اقتصادی تنازعہ کے متعلق کبھی منفی کبھی مثبت خبروں کی وجہ سے نیویارک کاٹن کے وعدے کے بھائو میں اتارچڑھا ہوتا رہا USDA کی امریکن روئی کی ہفتہ وار برآمدات میں گزشتہ ہفتہ کی نسبت 9 فیصداضافہ اور امریکہ اور چین کے اقتصادی تنازعہ میں نرمی کی دوبارہ خبروں کی وجہ سے نیویارک کاٹن کے بھا میں اضافہ رہا وعدے کا بھا بڑھ کر فی پانڈ 65 امریکن سینٹ سے تجاوز کرگیا اس مرتبہ بھی پاکستان امریکن کاٹن کی درآمد میں دوسرے نمبر پر رہا چین نے امریکن روئی درآمد نہیں کی چین میں روئی کے بھا میں استحکام رہا جبکہ بھارت میں روئی کے بھا میں اتارچڑھا کا رجحان برقرار رہا بھارت میں نئی فصل 20-2019 کی روئی کی فصل کی جزوی آمد شروع ہوچکی ہے اس سال بھارت میں خاصی بارشوں کی وجہ سے کپاس کی فصل میں گزشتہ سیزن کے نسبت خاصا اضافہ ہونے کی توقع کی جا رہی ہے بھارت کے نادرن ایریا سے CCI کاٹن کارپوریشن آف انڈیا کے سرکاری طورپر کپاس کے کاشتکاروں کو مناسب بھا دینے کی غرض سے سیزن کی شروع سے ہی روئی کی خریداری شروع کر دی ہے۔

بھارت کے AKOLA شہر میں دو روزہ کاٹن کانفرنس منعقد کی جارہی ہے کاٹن کے کاروبار سے منسلک لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اہلکار اور زرعی شعبہ اور کپاس کے نجی درآمد برآمد کار کپاس کی پیداوار بڑھانے کی غرض سے کاشتکاروں اور جنرز کو سپورٹ کرتے ہیں کاٹن سیمینار اور کانفرنس کا انعقاد کرتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں اس قسم کی کاوشوں کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔

دریں اثنا پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن نے 15 اکتوبر تک ملک میں کپاس کی پیداوار کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جس کے مطابق اس عرصے میں ملک میں روئی کی پیداوار 44 لاکھ 40 ہزار گانٹھوں کی ہوئی جو گزشتہ سال کی اسی عرصے کی پیداوار سے 16 لاکھ گانٹھیں ( 26.54 فیصد)کم ہے۔ جو کہ تشویشناک بتائی جاتی ہے ماہرین کا خیال ہے کہ اس سال کپاس کی کل پیداوار بمشکل 90 لاکھ گانٹھوں کی ہوگی اس طرح مقامی ملز کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیرون ممالک سے تقریبا 50 لاکھ گانٹھیں درآمد کرنی پڑے گی جس کی مالیت تقریبا ڈیڑھ ارب ڈالر ہوگی پہلے ہی ملک کی اقتصادی حالت دیگر گو ہے جس پر ایک اور بوجھ پڑے گا۔

حکومت کو چاہئے کہ اس ضمن میں خصوصی توجہ کی جائے اور آئندہ سیزن میں کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے مثبت اقدامات کیے جائیں خصوصی طور پر کپاس کے صحیح بیج کا اہتمام کیا جائے اور ناقص اور جعلی ادویات کا تدارک کیا جائے ہوسکے تو بیرون ممالک سے کپاس کے نئے بیج درآمد کرنے کا بندوبست کیا جائے اگر اب بھی کپاس کی فصل بڑھانے کی حکمت عملی نہ کی گئی تو ملک میں کپاس کی فصل کچھ سالوں کے بعد خدشہ ہے کہ ناپید ہوجائے گی۔