الیکشن میں دھاندلی کی بکواس اتنی پرانی کوئی ماننے کو تیار نہیں

پچھلے الیکشن میں 220 ارب انتخابات کروانے پر خرچ ہوئے تھے، اب ایک شخص جو اپنے حلقے سے بھی الیکشن ہار گیا وہ کہتا انتخابات کروائے جائیں ؟ ایک شخص کے الیکشن کیلئے موجودہ حالات میں کون 220 ارب دے گا؟ سینئر تجزیہ کار جنرل (ر) اعجاز اعوان کا تبصرہ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ ہفتہ 19 اکتوبر 2019 19:36

الیکشن میں دھاندلی کی بکواس اتنی پرانی کوئی ماننے کو تیار نہیں
لاہور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔19 اکتوبر2019ء) سینئر تجزیہ کار جنرل (ر)اعجاز اعوان نے کہا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی کی بکواس اتنی پرانی کوئی ماننے کو تیار نہیں، پچھلے الیکشن میں 220 ارب انتخابات کروانے پر خرچ ہوئے تھے، اب ایک شخص جو اپنے حلقے سے بھی الیکشن ہار گیا وہ کہتا انتخابات کروائے جائیں ؟ایک شخص کے الیکشن کیلئے موجودہ حالات میں کون 220 ارب دے گا؟ انہوں نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کا ایجنڈا ہے کہ نئے انتخابات کروائیں اس میں فوج کا کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہیے۔

الیکشن کمیشن اور اس وقت کی منتخب حکومتوں نے فوج کو کہا تھا کہ آپ آئیں اور الیکشن میں نظم وضبط قائم کریں۔آج ایک شخص کہتا ہے کہ پورے ملک میں نئے انتخابات کروائے جائیں جو اپنی سیٹ ہار گیا تھا۔

(جاری ہے)

دوسری جماعت کی توسمجھ آتی ہے کیوں کہ ان کی لیڈرشپ جیلوں میں قید ہے۔22کروڑ عوام دیکھ رہے ہیں کہ پھٹے ہوئے جوتوں میں الیکشن لڑنے والے آج گاڑی میں ہیں، ملک غریب اور سیاستدان امیر ہوگئے ہیں۔

ایک سیاستدان ایسا نہیں کہ منتخب ہونے کے بعد وہ غریب ہوگیا ہو؟انہوں نے کہا کہ آج محکموں میں کوئی میرٹ نہیں ہے۔ ایسے نظام کو جمہوریت نہیں کہتے جس میں لوگوں کو کہا جائے کہ ارکان اسمبلی کے دروازوں پرجائیں اور اپنا حق مانگیں۔مولانا صاحب مغربی نظام حکومت کے دلدادہ ہیں ، یہی پارلیمانی نظام چلنا چاہیے، کیو نکہ اس میں آئندہ نسلوں کیلئے دولت بنانے اور کرپشن کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔

لیکن آج تک اداروں میں کیوں اصلاحات نہیں کی گئیں،کیونکہ عدلیہ اور بیوروکریسی کی اصلاحات نہیں کی گئیں؟نہرو نے تولینڈ ریفارمز پہلے چند سالوں میں ہی کردی تھیں۔ اس لیے کہ جو اقتدار پر قابض رہنا چاہتے ہیں ان کیلئے میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو،یہی طریقہ ہے کہ عوام کو محکوم بنا کررکھا جائے۔انہوں نے کہا کہ جب تک ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں اقتدار نہیں لگا تھا اور وہ پہلے سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرنہیں بنے تھے،اس وقت تک آئی ایس آئی کا سیاست میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا، اس وقت پہلی بارآئین میں آئی ایس آئی کو سیاست میں مداخلت کا رول دیا گیا۔

آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ کی ابتداء ذوالفقار بھٹو نے کی،جو سب سے زیادہ مقبول لیڈر تھا،آئین کی چھتری میں ان اداروں کو سیاست میں لانے والے پاک صاف ہیں، جو حکم مانتے ہیں ان کا جرم بن جاتا ہے۔انہوں نے جب آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے توان سے کہا گیا کہ الیکشن کیلئے پولنگ کے اندر فوج تعینات کریں لیکن اشفا ق پرویز کیانی نے کہا کہ فوج باہر سکیورٹی کے فرائض سرانجام دے گی۔

ان الیکشن کو کہا گیا اندر دھاندلی ہوتی رہی اور فوج باہر خاموش کھڑی رہی۔جب فوج پولنگ کے اندرآئی تو پھر الزام لگایا گیا۔ انتخابات 2018ء میں 2فیصد بھی نتائج چیلنج نہیں کیے گئے۔پیپلزپارٹی تو 11سال ایک صوبے میں حکومت کررہی ہے۔سندھ میں انتخابات ٹھیک ہوئے ہیں،خود فضل الرحمان کے حلقوں میں جہاں وہ جیتے وہاں الیکشن شفاف جہاں ہارے وہاں الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔

یہ بکواس اتنی پرانی ہے کہ کوئی ذی شعور انسان اس کوماننے کو تیار نہیں۔ایک اندازے کے مطابق 220ارب انتخابات کروانے پر خرچ ہوئے تھے، وہ شخص جو اپنے حلقے سے ہار گیا وہ کہتا انتخابات کروائے جائیں ؟کون 220ارب دے گا؟ملکی معیشت کس طرف جا رہی ہے؟ابھی افغانستان میں انتخابات ہوئے ہیں، پورے ملک میں انتخابات کا ٹرن آؤٹ 23فیصد ہے، مولانا کا انتخاب خود کروانے کا مقصد عورتوں اور شریف لوگوں کو الیکشن میں جانے ہی نہ دیا جائے،ان کو خوف زدہ کیا جائے، جبکہ صرف 20فیصد وہ لوگ ووٹ ڈالیں جنہوں نے جتھہ بندی کرکے آنی ہے۔