علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام سرسید ڈے منایاگیا

سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کی بحیثیت ایک قوم پہچان کرائی،سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجیچانسلر جاوید انوار

ہفتہ 19 اکتوبر 2019 22:09

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 اکتوبر2019ء) علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے برصغیر کے عظیم مفکر سرسید احمد خان کا202واں یوم پیدائش روایتی جوش و جذبہ کے ساتھ منایا گیا اور ممتاز دانشوروں نے سرسید احمد خان کی حیات و خدمات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔

تقریب کے مہمانِ خصوصی جسٹس حازق الخیری نے کہا کہ ہندوستان کی اکثریت نے اقلیت کو طاقت کے بل بوتے پر کچلنا چاہا ، جو قیام ِ پاکستان کا سبب بنا۔پورے ہندوستان میں دو مسلمان گریجویٹ تھے جبکہ ہندو گریجویٹس کی تعداد 846تھی۔ سرسید احمد خان ایک عہد ساز شخصیت تھے۔انھوں نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ ملک کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔

(جاری ہے)

وہ ایک دوراندیش اور مستقبل بین رہنما تھے۔

انھوں نے سائنسی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا۔سرسید احمد خان بلاشبہ ملّتِ اسلامیہ کے عظیم محسن تھے جنھوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے لیے راہ ہموار کی۔قبل ازیں سرسید ڈے کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈبوائز ایسوسی ایشن کے صدر اور سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے بعد بحثیت قوم، ہم نے سرسید احمد خان کے مشن کو تو پکڑے رکھا مگر اس کی آبیاری جس انداز میں ہونی چاہئے تھی۔

بحثیت علمبردار، ہم نہیں کر پائے۔سرسید احمد خان نے برصغیر کے مسلمانوں کی بحیثیت ایک قوم پہچان کرائی اور انھیں ایک قوم کا تشخص دیا جس کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا۔سرسید کا مشن سائنس اور ٹیکنالوجی کا حصول اور معاشی خودکفالت تھا جس کا عملی تجربہ سنگاپور نے کیا اور جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر سنگاپور ترقی کی دوڑ میں امریکہ سے آگے نکل گیا ہے۔

مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ سرسید احمد خان کا وژن یہی تھا۔رواں سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں سرسید یونیورسٹی کے قیام کی 25ویں سالگرہ منائی جارہی ہے ۔اس ضمن میں ایک ہفتے تک مختلف نوعیت کے پروگرام منعقد ہوں گے جن میں مختلف موضوعات پر سیمینارز اور ورکشاپس شامل ہیں۔ محسنین اور بانیانِ اے آئی ٹی (AIT) اور سرسید یونیورسٹی، پر بھی ایک پروگرام ہوگا۔

۔۔ جنھوں نے ہراول دستے کے طور پر فعال کردار ادا کیا۔ اس ضمن میںسرسید یونیورسٹی المنائی کی ایک خصوصی تقریب ہوگی اور شہید میجر عدیل شاہد کی یاد میںایک بین الجامعاتی ڈرون مقابلہ کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔سرسید یونیورسٹی میں سائبر سیکوریٹی کے حوالے سی عنقریب ایک نیا شعبہ Sir Syed Ahmed Khan Centre of Excellence for Cyber Security متعارف کرایا جائے گا۔اسی طرح سرسیدٹاور میں Sir Syed Academy of Emerging Technology کا آغاز ہو گیا ہے۔

جس کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے جدید شارٹ کورسز کرائے جائیںگے۔اس کے علاوہ سرسید ٹاور میں سرسید ہال کا افتتاح ہونے جارہا ہے۔ایک انوویشن سینٹر (innovation centre) کے قیام کی بھی بات ہورہی ہے۔ایجوکیشن سٹی میں دو سو ایکٹر زمین پر نئے کیمپس کی تعمیر کے سلسلے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔سروے مکمل ہوچکا ہے۔ ٹائون پلاننگ اور آرکیٹیکچرپلاننگ کا ٹینڈر طلب کیا جاچکا ہے۔

انشاء اللہ ایک سال کے اندر مختلف شعبہ جات پر مشتمل ماڈلز سامنے آجائیں گے۔ممتاز اسکالر پروفیسر انوار احمد زئی نے کہا کہ سرسید احمد خان نے انگریزی تعلیم حاصل کرنے پر اس لیے زور دیا کیونکہ انھوں نے بھانپ لیا تھا کہ انگریزی زبان سکہ رائج الوقت بننے جارہی ہے۔ مگر ساتھ ہی اس بات کی ہدایت بھی کردی کہ اگرآپ اپنے بچوں کو انگریزی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی تہذیب، تمدن، ثقافت اور قرآن سے روشناس نہیں کراتے تو یہ دیوانے کے ہاتھ میں تلوار دے دینے کے مترادف ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرسید ایک بڑے آدمی تھے اور بقول جنید بغدادی بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو جًلا کر دوسروں کی زندگی کو جِلا دیتا ہے۔معروف ادیب و دانشور مبین مرزا نے کہا کہ بڑے آدمی جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو ان کی مثال اس ٹوٹتے ستارے جیسی ہوتی ہے جو اپنے پیچھے روشنی کی ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے۔ممتاز اسکالر رخسانہ صبا نے کہا کہ سرسید کے انتقال کو 200سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر ان کی شخصیت کی نئی جہتیں سامنے آرہی ہیں۔

وہ نیک نیتی سے برصغیر کے مسلمانوں کی ترقی و بہتری کے لیے کوشاں تھے اور ان کی نیت کا یہی اخلاص تھا کہ آج وہ ۰۰۲ سال بعد بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری انجینئر محمد ارشد خان نے اظہارِ تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ سرسید احمد خان نے علیگڑھ مدرسے کی بنیاد رکھی جو درحقیقت قیامِ پاکستان کی بنیاد کی پہلی اینٹ تھی۔ہمیں اپنی تاریخ یاد رکھنی چاہئے۔ اینٹ کا اینٹ سے ربط ختم ہوجائے تو دیوار اپنے ہی بوجھ سے گر جاتی ہے۔اداروں کا نہ کوئی مالک ہوتا ہے، نہ کوئی وارث ۔اس کے امین ہوتے ہیں۔علیگ نے اپنے حصے کا کام کردیا اب المنائی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائیں۔