کراچی، پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ضروری ہے،جاوید انوار

پاکستان کے قیام کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر ہم ایک انجن تک نہیں بنا پائے ہیں،درآمدات کے حجم کو تو بڑھا لیا مگر برآمدات میں اضافہ کے لیے کوئی موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دی، چانسلر سرسید یونیورسٹی

ہفتہ 19 اکتوبر 2019 22:25

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 اکتوبر2019ء) سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور ڈائس فائ ونڈیشن )USA) کے زیر اہتمام کیمپس میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار، وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین، رجسٹرار سید سرفراز علی، ڈائس فائ ونڈیشن کے چیئر ڈاکٹر خورشید قریشی، صدر سعدا لٰہی، وائس ایڈمرل (ر) عارف اللہ حسینی و دیگر موجود تھے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ضروری ہے۔ پاکستان کے قیام کو ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے مگر ہم ایک انجن تک نہیں بنا پائے ہیں۔ ہم نے مصنوعات کی خریداری پرزیادہ توجہ دی ، لیکن انھیں ملک میں تیار کرنے سے انحراف کیا۔

(جاری ہے)

درآمدات کے حجم کو تو بڑھا لیا مگر برآمدات میں اضافہ کے لیے کوئی موزوں حکمت عملی ترتیب نہیں دی۔

لبنان اور اسرائیل کو اوورسیزشہری چلا رہے ہیں۔ نامساعد حالات میں کام کرنا ہی چیلینج ہے۔ ڈائس فائ ونڈیشن ، اوورسیز پاکستانی، طلبائ برادری، اکیڈمیا، انڈسٹر ی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے سرگرم ہے۔ اوورسیز پاکستانیوں کے کام کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ پاکستان سے کس قدر مخلص ہیں۔ انھوں نے جو کار ڈیزائن کی ہے ، اس کا ماڈل جلد ہی ایک خیال سے حقیقت کا روپ ڈھال لے گا۔

اس کام میں حکومتی اور دیگر متعلقہ اداروں کو مدد کرنی چاہئے۔وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ اب جامعات کا کام صرف درس و تدریس تک محدود نہیں رہا بلکہ مختلف اداروں کے ساتھ تحقیقی کاموں میں شراکت بھی کام کا حصہ بن چکی ہے۔ اوورسیز پاکستانی ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہیں مگر پھر بھی پاکستان کے لیے کام کرنے کی آرزو ان کے اندر موجود ہے۔

اپنے ملک کی ترقی اور کامیابی ان کے لیئے اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ڈائس فائ ونڈیشن کے چیئر ڈاکٹر خورشید احمد قریشی نے کہا کہ ڈائس فائ ونڈیشن پاکستان میں ایک انوویٹو innovative کلچر لایا ہے جس کے تحت پاکستان ویسے ہی ترقی کرے گا جیسے دیگر ممالک نے کی ہے۔ ڈائس کے حالیہ ہیلتھ کے پروگرام میں ۰۵۲ سے ۰۰۳ تک جدید پروجیکٹس پیش کئے گئے۔ اس میں تقریباًً 15 انڈسٹریز نے شرکت کی اور کئی پروجیکٹس ایسے منفرد تھے کہ انھیں فنڈنگ حاصل ہوگئی۔

ڈائس فائ ونڈیشن نی;National Innovative Basket بنایا ہے جس کے تحت تقریباًً سو میگا پروجیکٹس پر کام ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں حکومتی اداروں ، thought لیڈروں بزنس مین کی مدد چاہئے۔ درآمدات کم کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ خام مال درآمد کیا جائے اور مصنوعات پاکستان میں تیار کی جائیں۔ پاکستان میں ماریں یا مریں والی کیفیت ہے۔ یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔

ہر سسٹم کا روڈ میپ ہونا چاہئے۔ گاڑی کی تیاری کا پہلا مرحلہ ختم ہوچکا ہے اور دو سے تین سال تک یہ گاڑی مکمل ہوجائے گی۔ یہ آغاز ہے۔ ایسے پروجیکٹ پاکستان میں ہونے چاہئیں۔ڈائس فائ ونڈیشن کے صدر سعد الٰہی نے کہا کہ سوسال سے دنیا گاڑیاں بنا رہی ہے مگر ہم نے یہ کام نہیں سیکھا۔ الیکٹرک کار کی ٹیکنالوجی کو ابھی سے سیکھنا شروع کردینا چاہئے۔

ڈائس فائ ونڈیشن کے تحت تیار کی جانے والی کار، ڈیجیٹل مرحلے سے فزیکل مرحلے میں داخل ہونے جارہی ہے۔ پاکستان کی معیشت بہتر ہوگی تو یہاں ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔وائس ایڈمرل (ر) عارف اللہ حسینی نے کہا کہ ٹیکس اور ڈیوٹی ملکی خزانے بھرنے کے لیے لگانا ایک انتہائی منفی عمل ہے۔ ڈیوٹی ہمیشہ انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ سوچ کی تبدیلی کے بغیر تبدیلی ناممکن ہے۔ پریس کانفرنس کے اختتام کے بعد سوالات اور جوابات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد صحافیوں کو پنڈال لے جایا گیا جہاں انھیں گاڑی کا ماڈل دکھایا گیا۔