سائبر کرائم عدالت نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی

عدالت کی ایف آئی اے کو ملزمان کے خلاف مکمل چالان جمع کروانے کی ہدایت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 22 اکتوبر 2019 11:57

سائبر کرائم عدالت نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اکتوبر ۔2019ء) سائبر کرائم عدالت نے جج ویڈیو اسکینڈل کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کی درخواست مسترد کردی ہے. سائبر کرائم عدالت کے خصوصی جج طاہر محمود خان نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ملزمان کے خلاف مکمل چالان جمع کروانے کی بھی ہدایت کی. ایف آئی اے نے جج ارشد ملک کی شکایت پر کیس کی تحقیقات سائبر کرائم ونگ سے انسداد دہشت گردی ونگ کو منتقل کیے جانے کے بعد مذکورہ کیس کو بھی اے ٹی سی منتقل کرنے کی درخواست کی تھی.

(جاری ہے)

خیال رہے کہ جج ارشد ملک نے ایف آئی اے کے سائب کرائم ونگز کی جانب سے 3 ملزمان ناصر جنجوعہ، غلام جیلانی اور خرم یوسف کو بے گناہ قرار دیے جانے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا. جس کے بعد ایف آئی اے نے تفتیش کو انسداد دہشت گردی ونگ میں منتقل کرنے کے ساتھ برقی جرائم عدالت میں کیس کو بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت منتقل کرنے کی درخواست دائر کردی تھی.

تحقیقات منتقل ہونے کے بعد مرکزی ملزم ناصت بٹ کے بھیتجے سمیت 2 ملزمان کو انسداد دہشت گردی ونگ نے گرفتار کیا تھا اور انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کر کے جسمانی ریمانڈ بھی لیا گیا تھا جس کے بعد انہیں عدالتی ریمانڈ پر اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا. دوسری جانب ناصر بٹ کی جانب سے جج ارشد ملک کے خلاف دستاویزی ثبوت کو تصدیق نہ کرنے پر سیکریٹری خارجہ، فرسٹ سیکرٹری اور برطانیہ میں موجود پاکستان ہائی کمیشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی.

درخواست گزر کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کے موکل کے متعدد مرتبہ پاکستانی ہائی کمیشن جانے کے باوجود متعلقہ حکام ان دستاویزات کی تصدیق کرنے سے گریزاں ہیں جو وہ پہلے ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرواچکے ہیں. یاد رہے کہ 5 اکتوبر کو ناصر بٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ویڈیو میں جج ارشد ملک اور ناصر بٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کی مصدقہ تحریر، درخواست کا بیان حلفی، آڈیو اور ویڈیو کی فرانزیک رپورٹ اور اصلی ویڈیو اور ویڈیو سے بنائی گئی آڈیو پر مشتمل یو ایس بی عدالت میں جمع کروائی تھی.

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں. مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے.

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراﺅنے خواب آتے لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے.انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے.

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا. تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی.

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا. بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ءڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا.

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا‘بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی.