کشمیر کے بارے میں بیان میرے ضمیر کی آواز ہے جس سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ تبدیل کریں گے: مہاتیر محمد

مہاتیر محمد نے ہندو تاجروں کے ملائیشیا سے اربوں ڈالر مالیت کی ناریل کے تیل کی تجارت بند کرنے کی دھمکی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کشمیر پر بھارتی جارحیت سے متعلق اپنا بیان واپس لینے سے انکار کردیا

منگل 22 اکتوبر 2019 12:40

کشمیر کے بارے میں بیان میرے ضمیر کی آواز ہے جس سے پیچھے ہٹیں گے اور ..
کوالالمپور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2019ء) ملائیشیا کے وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمدنے کشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پر ثابت قدم رہتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ہمارے ضمیرکی آوازہے اوربھارت میں کچھ لوگوں کی طرف سے ملائیشین مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیلوں کے باوجود ہم نہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹیں گے اور نہ تبدیل کریں گے۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کوالالمپور میں پارلیمنٹ لابی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہم نے اپنے ضمیر کی بات کی ہے اورہم نہ اسے پیچھے ہٹیں گے اورنہ تبدیل کریں گے۔

انہوں نے کہا بھارت ، پاکستان اور امریکہ سمیت تمام ممالک کو جموںوکشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری کرنی چاہیے۔ بھارتی حکومت نے 5اگست کو جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے علاقے میں احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ اورٹیلیفون سروسزکی معطلی سمیت غیر معمولی پابندیاں عائد کی تھیں۔

(جاری ہے)

مہاتیر محمد نی28ستمبر کو نیویارک میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہاتھا کہ جموںوکشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود بھارت نے اس پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا ہے۔

انہوں نے بھارت پر زوردیا تھا کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر اس مسئلے کو حل کرے۔ ڈاکٹر مہاتیر کے بیان پربھارت کے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل ہوا اور ملائیشیا کی مصنوعات کے بائیکاٹ پر زوردیاگیا۔حالیہ اطلاعات کے مطابق بھارت ملائیشیاسے پام آئل اور دیگر مصنوعات کی درآمد پر نظرثانی کررہا ہے جبکہ بھارت کی تاجر تنظیم نے اپنے ارکان کو ملائیشیا سے پام آئل نہ خریدنے کی ہدایت کی ہے۔

مہاتیر محمد نے کہاہے کہ حکومت بائیکاٹ کے اثرات کا جائزہ لے گی لیکن ابھی اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ کئی دفعہ ہمارے تعلقات میں تنائو پیدا ہوجاتا ہے لیکن ہم تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ملائیشیا ایک تجارتی ملک ہے اورہمیں منڈیوں کی ضرورت ہے لیکن ہمیں دوسروں کے لیے بھی بات کرنا ہوگی اس لیے ہم جو کہتے ہیں کچھ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور کچھ ناپسند کرتے ہیں۔