ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ سے عوام کی قوت خرید ختم ، غیر ملکی درآمد کنندگان کا بھی انتہائی مہنگی پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات خریدنے سے گریز

منگل 22 اکتوبر 2019 12:51

ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ سے عوام کی قوت خرید ختم ..
فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 22 اکتوبر2019ء) آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن اور پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے ترجمان نے کہا ہے کہ بجلی ، گیس ، خام مال ، پٹرولیم مصنوعات، مختلف ٹیکسز کی شرح میں آئے روز اضافہ کے باعث صنعتی و ٹیکسٹائل مصنوعات کی پیداواری لاگت بڑھنے سے عوام کی قوت خرید ختم ہو کر رہ گئی ہے جبکہ غیر ملکی درآمد کنندگان نے بھی انتہائی مہنگی پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات خریدنے سے گریز شروع کردیاہے جس سے برآمدی اہداف بری طرح متاثر ہو رہے ہیں اور عالمی منڈیوں میں پاکستان کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ صنعتی ، کاروباری ، تجارتی ، درآمدی ، برآمدی شعبہ جات سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کی کانفرنس طلب کرے تا کہ ان مسائل کا حل ممکن بنایا جا سکے اور زر مبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر میں استحکام آ سکے ۔

(جاری ہے)

میڈیا سے بات چیت کے دوران انہوںنے کہا کہ صنعتی شعبہ کو مسلسل گیس کی فراہمی بھی یقینی نہ بنائی جا رہی ہے جس سے کرسمس اور نیو ایئر کے برآمدی آرڈرز پورے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔انہوںنے کہا کہ صنعتی شعبہ کو اگر اس کی مکمل گنجائش کے مطابق مسلسل 24گھنٹے گیس فراہم کر دی جائے تو اس کے زبر دست نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ موسم سرما کی آمد سے قبل ہی بجلی و گیس کی غیر اعلانیہ بندش بھی شروع کر دی گئی ہے اور اس ضمن میں مینٹیننس کا جواز پیش کیا جا رہا ہے ۔

انہوںنے توقع ظاہر کی کہ حکومت ملک کی اقتصادی ترقی اور معاشی استحکام کیلئے فوری بجلی و گیس کی قیمتوں میں کمی لائے گی تاکہ مصنوعات کی پیداواری لاگت میں کمی لا کر بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی ساکھ کو بحال کرنے میں مدد مل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا تاجر اور صنعتکار طبقہ محب وطن ہے جو گزشتہ 72سالوں سے قربانیاں دے رہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ صنعتوں میں مصنوعات پر لاگتی اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے جہاں عوام کی قوت خرید ختم ہو چکی ہے وہیں غیر ملکی خریداروں نے بھی پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کو خریدنے سے گریز کرتے ہوئے دیگر ہمسایہ ممالک سے روابط جاری کر لئے ہیں لہٰذا اگر خدانخواستہ یہی صورتحال جاری رہی تو ہمیں اپنے استعمال کی ہر چیز کیلئے بیرونی ممالک کا سہارا لینا پڑے گا اور یوں ہم ایک بار پھر اُسی مقام پر پہنچ جائیں گے جہاں سے قیام پاکستان کے بعد سفر شروع کیا تھا۔