ضرورت پڑی تو ترکی کے خلاف طاقت استعمال کریں گے. امریکی وزیر خارجہ

امریکی وزیردفاع مارک ایسپر سعودی عرب پہنچ گئےایران اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال ہوگا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 22 اکتوبر 2019 13:43

ضرورت پڑی تو ترکی کے خلاف طاقت استعمال کریں گے. امریکی وزیر خارجہ
واشنگٹن/ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اکتوبر ۔2019ء) امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے خبردار کیا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ضرورت پڑنے پر ترکی کے خلاف طاقت کے استعمال کے لیے پوری طرح تیار ہیں‘پومپیو نے امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے بیان میں واضح کیا کہ واشنگٹن جنگ پر امن کو ترجیح دیتا ہے تاہم اگر فوجی کارروائی کی ضرورت پڑی تو ہم ایسا کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں.

اس سے قبل شام کے معاملے پر امریکی صدر نے کہا تھا کہ شمالی شام میں جنگ بندی کی کچھ معمولی خلاف ورزیوں کے باوجود اس پرعمل درامد کیا جا رہا ہے‘ جنگ بندی معاہدے کے خاتمے سے ایک دن قبل انہوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ ترکی معاہدے کی پاسداری کرے گا اس لیے وہ ترکی کو مزید پابندیوں کی دھمکی نہیں دینا چاہتے. امریکی صدر نے کہا کہ اگر ترکی غلط برتاوکا مظاہرہ کرتا ہے تو امریکا اپنی مصنوعات پر محصولات اور پابندیاں عائد کرے گا‘ٹرمپ نے اپنی انتظامیہ کے ایک اجلاس کے دوران وائٹ ہاﺅس میں صحافیوں کو بتایا کہ امریکا نے کردوں سے ان کے تحفظ کے لیے400 سال خطے میں رہنے کا کبھی بھی کوئی عہد نہیں کیا ہے.

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ وہ شام میں امریکی فوج کو نہیں رکھنا چاہتے ٹرمپ کے مطابق امریکی فوجیوں کی محدود تعداد شام میں رہے گی ان میں بعض کو اردن کے ساتھ سرحد پر تعینات کیا جائے گا جب کہ دیگر بعض آئل فیلڈز کی حفاظت کریں گے. ادھر ترکی کے عسکری ذرائع نے بتایا کہ انقرہ اور واشنگٹن کے بیچ 120 گھنٹوں کے لیے طے پائی جانے والی فائر بندی آج شام کے مقامی وقت کے مطابق رات 10 بجے اختتام پذیر ہو رہی ہے اس فائر بندی کا مقصد یہ تھا کہ کرد جنگجو شمال مشرقی شام میں اپنے ٹھکانوں کو خالی کر کے چلے جائیں.

ذرائع کے مطابق مذکورہ فائر بندی کا آغاز جمعرات کی رات مقامی وقت کے مطابق 10 بجے ہوا تھا‘ ذرائع نے باور کرایا کہ ترکی شام کے ساتھ اپنی سرحد پر جس”سیف زون“کے قیام کا ارادہ رکھتا ہے ، پہلے مرحلے میں اس کی لمبائی تل ابیض سے راس العین تک 120 کلو میٹر ہو گی بعد ازاں توسیع کے ذریعے اس کو 444 کلو میٹر تک پھیلا دیا جائے گا. دوسری جانب امریکا کے وزیردفاع مارک ایسپر سعودی عرب کے پہلے دورے پر دارالحکومت الریاض میں پہنچ گئے ہیں جولائی میں پینٹاگان کے سربراہ کے عہدے پر اپنے تقرر کی منظوری کے بعد ان کا سعودی عرب کا یہ پہلا دورہ ہے.

وہ یہ دورہ ایسے وقت میں کررہے ہیں جب ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی پائی ہے اور سعودی آرامکو کی تنصیبات پر 14 ستمبر کو ڈرون حملوں کے بعد ایران اور سعودی عرب میں بھی تناﺅ میں اضافہ ہوا ہے. امریکا کے محکمہ دفاع نے ایران ہی کو ان حملوں کا مورد الزام ٹھہرایا تھا اور ان کے بعد سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات کے تحفظ اور ایندھن کی عالمی سپلائی کو بلا تعطل یقینی بنانے کے لیے مزید قریباً تین ہزار فوجیوں کی تعیناتی اور جدید میزائل دفاعی نظام کی تنصیب کی منظوری دی تھی.

مارک ایسپر اس دورے کے موقع پر سعودی قیادت اور مملکت میں تعینات امریکی فوجیوں سے ملاقات کریں گے۔

(جاری ہے)

انھوں نے اس سے پہلے افغانستان کا دوروزہ دورہ کیا ہے. اس سے قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے توقع ظاہر کی تھی کہ شمالی شام سے نکلنے والے تمام امریکی فوجی جن کی تعداد تقریبا ایک ہزار ہے وہ عراق کے مغربی حصے میں منتقل ہوں گے تا کہ داعش تنظیم کے خلاف مہم جاری رہے.