پاکستان کی امن و سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اسے دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلہ کا ملک بنانا ضروری ہے ،سردار مسعود خان

صدر آزاد کشمیر کی تھنک ٹینکس ماہرین تعلیم،طلبہ سے پاکستان ،آزادکشمیر کو دفاعی، معاشی اور سماجی طور پر مضبوط و مستحکم بنانے کیلئے جامع پالیسی کی تیار ی میں مدد دینے کی اپیل ایک متحد قوم بن کر پاکستان کو طاقتور ریاست بنانے میں ناکام ہو گئے تو پاکستان کو بھی ایک ریاست کے طور پر چلانے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی، قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں خطاب

منگل 22 اکتوبر 2019 17:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 اکتوبر2019ء) صدر آزاد جموں وکشمیر سردار مسعود خان نے تھنک ٹینکس ماہرین تعلیم اور طلبہ سے پاکستان اور آزادکشمیر کو دفاعی، معاشی اور سماجی طور پر مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ایک جامع پالیسی کی تیار ی میں مدد دینے کی اپیل کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ اگر ہم ایک متحد قوم بن کر پاکستان کو طاقتور ریاست بنانے میں ناکام ہو گئے تو نہ صرف کشمیر ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا بلکہ پاکستان کو بھی ایک ریاست کے طور پر چلانے میں شدید مشکلات پیش آئیں گی۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ اسٹرٹیجک اسٹیڈیز میں اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کے تعاون سے ’’تنازعہ کشمیر اور جنوبی ایشیاء کی سلامتی‘‘ کے عنوان پر ایک روزہ ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ ہمیں خطرات، خدشات اور امکانات کے ادراک اور ان پر بحث و مباحثہ سے آگے جا کر ایسی پالیسی تشکیل دینی ہو گی تاکہ ہم نہ صرف ملک کو درپیش خطرات کا مقابلہ کر سکیں بلکہ بھارت کی طرف سے پورے خطہ کو درپیش خطرات کا رخ موڑنے، اپنے قومی مفادات حاصل کرنے اور ان کا تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

(جاری ہے)

ورکشاپ سے قائد اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد علی، اسلام آباد پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سید سجاد بخاری، ڈاکٹر شبانہ فیاض اور دیگر مقررین نے بھی خطاب کیا۔ جبکہ فیکلٹی ممبران اور طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد نے ورکشاپ میں شرکت کی۔ پروگرام کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ پاکستان کے امن و سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم نہ صرف اسے دفاعی اعتبار سے بھارت کے مقابلہ کا ملک بنائیں بلکہ اس سے برتر تاکہ دشمن کو ملک کے خلاف برُے ارادوں سے دیکھنے سے بازرکھا جائے۔

اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان کو معاشی ترقی کابنانے کے ساتھ ساتھ قوم کے اتحاد و یکجہتی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو ہر اعتبار سے مضبوط و مستحکم بنانا ہمارے لئے چوائس نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے ملک اور پورے خطے کے بارے میں بھارت کی حکمت عملی اور منصوبہ بندی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کے موجودہ حکمران ایسی پالیسی پر چل رہے ہیں جس کا مقصد خطہ میں اکھنڈ بھارت یا بھارت بھومی کو قائم کرنا ہے۔

اکھنڈ بھارت ہندو قوم کی برتری کا نظریہ ہے جس میں مسلمانوں سمیت کسی مذہب یا نظریہ کے ماننے والوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر پر پانچ اگست کو حملہ کر کے ریاست کے عوام کو حقوق سے محروم کرنااور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنا اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بھارت کے وزیر اعظم اور وزیر دفاع آزادکشمیر پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کرنے کی دھمکیاں بھی تسلسل کے ساتھ دے رہے ہیں جبکہ بھارت کے موجودہ حکمرانوں کی نظریاتی ماں آر ایس ایس نہ صرف پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے بلکہ وہ لاکھوں مردوں اور عورتوں کو فوجی تربیت دینے کے عملی کام کا آغاز بھی کر چکی ہے۔

صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت کے اندر صدیوں پہلے آکر آباد ہونے والے بہار کے مسلمانوں، آسام کے شہریوں اور بنگالیوں کو بھی شہریت سے محروم کرنا بھی اسی پالیسی کا حصہ ہے کیونکہ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کو اس وقت تک پاک نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ اس ملک کو غیر ہندئووں سے پاک نہ کر دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو بار بار بھارت سے اٹھنے والی نفرت اور شدت پسندی کی لہر اور مستقبل کے خطرات سے آگاہ کر رہے ہیں لیکن بعض اہم اور بااثر ممالک اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے پیش نظر بھارت کے خلاف بولنے کے لئے تیار نہیں۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دنیا کا میڈیا اور عالمی سول سوسائٹی بیدار ہے اور وہ کشمیریوں کی روئیداد ظلم سننے اور اسے دنیا کو سنانے کے لئے تیار ہے۔ صدر آزادکشمیر نے طلبہ ، اساتذہ اور سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ روائتی و سوشل میڈیا کی طاقت کو استعمال کر کے بھارت کی سول سوسائٹی تک بھی رسائی حاصل کریں اور اسے آنے والے خطرات سے آگاہ کریں کیونکہ بھارت کی سول سوسائٹی کا ایک بڑا حصہ وہی خطرات محسوس کر رہا ہے جو آپ اسلام آباد میں بیٹھ کر محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کے غیر قانونی اقدامات کے بعد پاکستانی قوم نے جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کیا وہ نہ صرف قائم و دائم رہنا چاہیے بلکہ اس میں مزید وسعت کی ضرورت ہے۔