کیا البغدادی کی ہلاکت سے داعش کمزور ہوگی؟

مشرقِ وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی اور تنازعات جب تک ختم نہیں ہوں گے، شدت پسندی کی آگ کو ایندھن ملتا رہے گا. ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 28 اکتوبر 2019 08:32

کیا البغدادی کی ہلاکت سے داعش کمزور ہوگی؟
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 اکتوبر ۔2019ء) امریکی صدر نے ایک بار پھر داعش کے سربراہ ابو بکر البغدادی کی شام کے صوبے ادلب میں امریکی فوج کے ایک خصوصی آپریشن میں ہلاکت کا اعلان کیا ہے مگر ماہرین کی جانب سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ابوبکر بغدادی کی ہلاکت کے ساتھ داعش کا وجود بھی ختم ہوجائے گا؟ امریکی دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد جس طرح القاعدہ کمزور ہوئی اسی طرح ابوبکربغدادی کی ہلاکت سے داعش بھی کمزور ہوکرختم ہوجائے گی.

(جاری ہے)

بعض لوگ امریکا کے اس دعوے کو قبول نہیں کررہے کیونکہ صدر ٹرمپ مختلف مواقع پر داعش کے مکمل خاتمے کے دعوے کر چکے ہیں لیکن عالمی سطح پر تنظیم کے زیرِ اثر گروپ مختلف ممالک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرتے رہے ہیں. دولت اسلامیہ یا داعش کو ابتداً القاعدہ ہی کا ایک دھڑا سمجھا جاتا ہے‘ نوے کی دہائی میں یہ تنظیم ”جماعت التوحید و الجہاد“ کے نام سے کام کر رہی تھی امریکہ کے 2003 میں عراق پر حملے کے بعد یہ تنظیم زیادہ سرگرم ہوئی اور امریکہ کی زیر سرپرستی قائم ہونے والی عراقی حکومت کے خلاف برسر پیکار رہی.

تنظیم کا مقصد خلیجی ممالک بالخصوص عراق، شام اور اردن میں اپنا تسلط قائم کرنا تھا جس کو انہوں نے خلافت کا نام دیا تاہم بعد ازاں اس تنظیم نے افغانستان، پاکستان اور بھارت سمیت مختلف ممالک میں بھی اپنی موجودگی کے دعوے کیے. مشرقِ وسطیٰ اور عرب امور کے ماہر صحافی و تجزیہ نگار منصور جعفر نے امریکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ داعش کا قیام صدام حسین کی فوج میں شامل ان ناراض اور بھگوڑے اہلکاروں کا مرہونِ منت ہے جنہوں نے القاعدہ میں اختلافات کی باعث اپنی نئی تنظیم تشکیل دی تھی‘تنظیم کا مقصد زیادہ انتہا پسند کارروائیوں کے ذریعے دنیا کی توجہ اور اپنے مقاصد کا حصول تھا.

انہوں نے بتایا کہ امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد عراق میں سرگرم جہادی تنظیم ”انصار الاسلام“ نے مزاحمت کا آغاز کیا جبکہ بصرہ میں مقیم شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدر بھی امریکہ کے خلاف مزاحمت میں کچھ عرصے تک شامل رہے. عراق کے شہروں بغداد، موصل، فلوجہ اور تکریت میں امریکی فوج کے خلاف مزاحمت میں تیزی آنے لگی اور ایک اردنی شہری ابومصعب الزرقاوی کا نام گوجنے لگا‘عراق میں امریکہ کے حمایت یافتہ شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کی حکومت قائم ہونے کے بعد جہادی گروپ زیادہ سرگرم ہو گئے اور عراق کی خانہ جنگی بڑی حد تک شیعہ اور سنی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی حیرت انگیز طور پر وزیرِ اعظم نورالمالکی کی حکومت کو ایران کی حمایت بھی حاصل تھی.

ابو مصعب الزرقاوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اسامہ بن لادن کے کہنے پر عراق میں امریکہ کے خلاف جہادی گروہوں کو متحرک کیا تھا جو بعد ازاں عراق میں امریکی فوج کے لیے دردِ سر بن گئے تھے‘الزرقاوی نے عراق میں متعدد خود کش حملے منظم کیے مخالفین کے سرقلم کرنے اور ظلم کی علامت بن جانے والے الزرقاوی 2006 میں امریکی کارروائی میں مارے گئے.

الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد ابو عمر البغدادی نے ان جہادی گروہوں کی کمان سنبھالی اور 15 اکتوبر 2006 میں دولتِ اسلامیہ عراق کی بنیاد ڈالی گئی. تنظیم نے اپنا نشریاتی ادارہ ”الفرقان“کے نام سے قائم کیا جس کے تحت میگزین اور آڈیو، ویڈیو پیغامات جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہوا 2010 میں ابو عمر البغدادی کی ہلاکت کے بعد دولت اسلامیہ عراق کی کمان ابوبکر البغدادی( ابراہیم اوواد ابراہیم البدری) نے سنبھال لی جس کے بعد یہ تنظیم مستحکم ہوتی گئی.

ابوبکر البغدادی کی سربراہی میں دولت اسلامیہ عراق نے تیزی سے کامیابیاں حاصل کیں ملک کے سنی اکثریتی علاقوں میں مقامی قبائل کی حمایت سے یہ تنظیم مضبوط ہوتی گئی اور ان علاقوں کے سرکاری بینک اور قیمتی وسائل بھی ان کے قبضے میں آ گئے ماہرین کے مطابق یہ صورت حال امریکہ کے لیے پریشان کن تھی. اس دوران 2011 میں شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف بھی عوام اٹھ کھڑے ہوئے اور تنظیم نے موقع غنیمت جانتے ہوئے وہاں بھی اپنے قدم جما لیے یوں یہ تنظیم دولت اسلامیہ عراق اور شام کے نام سے جانی جانے لگی‘ابوبکر البغدادی نے 2014 میں عراق اور شام کے وسیع علاقے پر مشتمل اپنی خلافت قائم کرنے کا اعلان کیا البغدادی نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ وہ پانچ سال کے اندر پرتگال سے لے کر بھارت تک پھیلے ممالک میں اپنی خلافت کو توسیع دیں گے.

منصور جعفرکا کہنا ہے کہ اس تنظیم کے خاتمے کے ضمن میں امریکہ اور ایران کے مفادات یکساں تھے‘انہوں نے بتایا کہ عراق اور شام میں داعش کو مستحکم ہوتا دیکھ کر ایران نے اس کے مقابلے لیے ”الحشد الشعبی“ کے نام سے عسکری گروپ لانچ کیا جس نے شام میں تہران کی سپلائی لائن اور افرادی قوت کو کبھی کمزور نہ ہونے دیا‘منصور جعفر کا کہنا ہے کہ داعش کے خاتمے کی آڑ میں ترکی اور اس سے قبل امریکی قیادت میں اتحادی فوج شام کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف رہی ماہرین کے مطابق امریکہ نے شام میں ”وائی پی جی“سمیت مختلف گروہوں کو داعش کے خاتمے کے لیے بطور فرنٹ لائن اتحادی استعمال کیا.

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ سال اعلان کیا تھا کہ مشرق وسطیٰ سے دولت اسلامیہ یا داعش کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے تاہم ناقدین صدر ٹرمپ کے ان دعووں کو غلط قرار دیتے رہے ہیں. منصور جعفر نے بتایا کہ کہ صدام حسین کی فوج کی باقیات نے اس انتہا پسند تنظیم کی فوجی تربیت کی اور وہ مشرق وسطیٰ میں شدت پسند فوج کے طور پر مشہور تھے‘صدام اور خود اس کے بیٹوں کی زندگی میں ایسی شدت پسندی کی جھلک نمایاں رہی ہے اور اسی مزاج کو داعش کے تربیتی نصاب کا حصہ بنایا گیا‘ یہ یرغمالیوں کے گلے کاٹ کر خوف کی ایسی فضا قائم کرنا چاہتے تھے تاکہ کوئی بھی ان کی راہ میں مزاحم نہ ہو سکے.

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کمزور ہوئی اسی طرح البغدادی کی ہلاکت کے بعد بھی داعش مزید کمزور ہو گی‘ البغدادی کی ہلاکت امریکہ اور یورپ کے لیے بڑی کامیابی ہے اور وہ اسے انتہاپسندی کے خاتمے کا اہم سنگ میل سمجھیں گے. لیکن بعض ماہرین یہ بھی کہتے ہیں مشرقِ وسطیٰ میں جاری خانہ جنگی اور تنازعات جب تک ختم نہیں ہوں گے، شدت پسندی کی آگ کو ایندھن ملتا رہے گا.