سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف زیرسماعت ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت

پیر 4 نومبر 2019 17:48

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 04 نومبر2019ء) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف زیرسماعت ریفرنس سے متعلق دائر آئینی درخواستوں کی سماعت ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایگزیکٹو کا حصہ ہے نہ وہ بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کی بات کر سکتی ہے، صدر مملکت کونسل کو مناسب شواہد پرکسی جج کیخلاف ریفرنس بھیج سکتے ہیں لیکن جس جج کیخلاف ریفرنس بھیجا جائے وہ کس طرح سوالات اٹھا سکتا ہے۔

پیرکوجسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے درخواستوں کی سماعت کی۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیراے ملک نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کی توجہ افتخارمحمد چوہدری کیس کے فیصلے کے پیراگراف 64 اور 70 کی طرف دلائی جس میں ریفرنس دائر ہونے سے پہلے اور بعدکیلئے اقدامات واضح کئے گئے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ آئین کاآرٹیکل 209 آرٹیکل 211 کے اثر سے باہر اورسپریم کورٹ کے جائزہ لینے کے اختیار کو ختم نہیں کرتا جبکہ آرٹیکل 211 کے تحت سپریم کورٹ کو ریفرنس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا ضرور جائزہ لینا چاہئے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ افتخار چوہدری کیس میں کہاں لکھا ہے کہ کونسل ریفرنس دائر کرنے کے پہلے مراحل کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ فاضل وکیل نے کہاکہ کونسل ریفرنس بھیجنے میں بدنیتی کے پہلو کا جائزہ نہیں لے سکتی تاہم وہ صدارتی ریفرنس کو سننے کی پابند ہے۔ فاضل جج نے جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل سے کہا کہ اگر کونسل سمجھ لے کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے تو کیا کونسل اس پر اپنی رائے نہیں دے گی، اس طرح تو آپ جوڈیشل کونسل کے اختیار کو محدود کر رہے ہیں۔

منیراے ملک نے کہاکہ دائرہ اختیار یا بد نیتی کے معاملے پر کوئی بھی سپریم کورٹ میں جا سکتا ہے، میں معروضات پیش کروںگا کہ عدالت خود اس معاملے کودیکھ لے اور اسے سپریم جوڈیشل کونسل کو نہ بھیجاجائے۔ جسٹس منیب اختر نے فاضل وکیل سے استفسارکیا کہ کیا کونسل کو بدنیتی کے باعث مس کنڈکٹ پر دائر ریفرنس خارج کر دینا چاہئے۔ منیراے ملک نے کہاکہ آئین نے جوڈیشل کونسل کو عدالت کا اختیار نہیں دیا اوروہ صدارتی ریفرنس کو واپس نہیں بھیج سکتی۔

اس کے برعکس کونسل کوصدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دینا ہوتی ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے فاضل وکیل سے استفسارکیاکہ کیا کونسل یہ کہہ سکتی ہے کہ ریفرنس غلط بھیجا گیا ہے کیونکہ صدرمملکت آرٹیکل 209 کے تحت مناسب شواہد کی تسلی ہونے پر ہی ریفرنس کونسل کو بھیجے گا۔ جسٹس منیب اختر کا کہناتھاکہ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ جس جج کیخلاف ریفرنس ہو وہ اس معاملے میں کس طرح سوالات اٹھا سکتا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے فاضل وکیل سے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس اور سینئر جج صاحبان کے علاوہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی ہوتے ہیں اس لئے وہ بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کی بات نہیں کر سکتی۔ دوسری جانب کونسل ایگزیکٹو کا حصہ نہیں تاہم صدر کسی جج کیخلاف مواد اکٹھا کر کے ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ منیراے ملک نے کہا کہ بے شک صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے ہیں لیکن ریفرنس ملنے کے بعد کونسل نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس کے حوالے سے اپنا ذہن اپلائی کیا ہے اورکہیں انہوں نے ریفرنس کابینہ یا وزیر اعظم کی سفارش پر تو نہیں بھیجا ہے کیونکہ کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں نہیں ہوتی لیکن عدالت میں کارروائی اوپن ہوتی ہے۔

جسٹس منیب نے کہاکہ جج کونسل کی کارروائی اوپن کرنے کا کہہ سکتا ہے جس کی مثال موجود ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کیخلاف ریفرنس میں کارروائی کھلی عدالت میں ہوئی تھی۔ منیر اے ملک نی1971 کے فل کورٹ ریفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئینی سوالات کا جواب عدالت عظمی دے سکتی ہے اور ایسا ہوا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے فاضل وکیل سے کہاکہ بلاشبہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے جس کے عدالت عظمی میں آنے سے کونسل کی ساری کارروائی منجمد ہو جائے گی تاہم کونسل کی کارروائی کیخلاف جج کی جانب سے 184/3کی درخواست دی جاسکتی ہے یا جج کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔

اس پرفاضل وکیل کا کہنا تھا کہ اس ریفرنس میں ہماراموقف یہ بھی ہے کہ کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا اور اس کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم اور وزراء اپنے فیصلوں پر کسی عدالت کو جوابدہ نہیں لیکن غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام پر کسی کو استثنیٰ حاصل نہیںکیونکہ وزیر اعظم اور وزراء آئین و قانون کے پابند ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہمیں بتایا جائے کہ زیرسماعت درخواستوں میں وزیر اعظم اور صدر مملکت پر براہ راست کون سا الزام ہے۔ منیر ملک نے کہا کہ قانون کی عملداری اور بدنیتی پر استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا اس لئے صدر مملکت، وزیر اعظم اور وزیر قانون کو اس کارروائی کا حصہ بننا چاہئے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ان شخصیات کی بدنیتی ریکارڈ پر موجود ہے یا نہیں۔

بنچ کے سربراہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی ہے۔ منیر اے ملک نے کہا کہ اس حوالے سے دیکھنا ہے کہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کرکے ریفرنس بھیجا ہے یا نہیں کیونکہ کسی جج کے خلاف ریفرنس بھجوانے میں ایڈوائس پر عمل کرنا آئین کے مطابق نہیں۔ فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ مزید سماعت آج (منگل ) ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔