جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس،یکھنا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس اپنا ذہن اپلائی کرکے بھیجا ہے یا پھر کابینہ یا وزیر اعظم کی سفارش پر ، منیر اے ملک

کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے میں صدرمملکت کاوزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے، دلائل یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کر کے ریفرنس بھیجا ہو، جسٹس منیب اختر بلاشبہ یہ ایک سیریس ایشو ہے،عدالت عظمی میں معاملہ آنے سے کونسل کی ساری کارروائی منجمد ہو جائیگی،جسٹس عمر عطاء بندیال

پیر 4 نومبر 2019 18:19

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 نومبر2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس پر سپریم جو ڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دور ان دلائل دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہاہے کہ دیکھنا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس اپنا ذہن اپلائی کرکے بھیجا ہے یا پھر کابینہ یا وزیر اعظم کی سفارش پر ،کسی جج کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس بھجوانے میں صدرمملکت کاوزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے۔

پیر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں دس رکنی فل کورٹ نے کی ۔

(جاری ہے)

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر ملک کے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ میں دلائل کا آغاز جسٹس منیب اختر اور فیصل عرب کے سوالات سے کروں گا۔ انہوںنے کہاکہ میں عدالت کی توجہ ایک بارر پھر افتخار محمد چوہدری کیس کے فیصلے کے پیراگراف 64 اور 70 کی طرف دلائوں گا۔

منیر اے ملک نے کہاکہ پیرا 64 میں ریفرنس دائر ہونے سے پہلے 5 اقدامات واضح کیے گئے ہیں،اسی پیرا میں ریفرنس دائر ہونے کے بعد کے تین پہرا گراف واضح کیے گئے ہیں۔منیر اے ملک نے کہاکہ آئین کاآرٹیکل 209 آرٹیکل 211 کے اثر سے باہر ہے،آئین کاآرٹیکل 209 سپریم کورٹ کے جائزہ لینے کے اختیار کو ختم نہیں کرتا۔منیر اے ملک نے کہاکہ سپریم کورٹ کو آئین آرٹیکل 211 کے تحت ریفرنس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا ضرور جائزہ لینا چاہیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ افتخار چوہدری کیس میں کہاں لکھا ہے کہ کونسل ریفرنس دائر کرنے کے پہلے کے مراحل کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ کونسل ریفرنس بھیجنے میں بدنیتی کے پہلو کا جائزہ نہیں لے سکتی ۔ وکیل منیر اے ملک نے کہاکہ کونسل صدارتی ریفرنس کو سننے کی پابند ہے ۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ اگر کونسل سمجھے کہ ریفرنس بد نیتی پر مبنی ہے تو کیا کونسل اس پر اپنی رائے نہیں دے گی ۔

انہوںنے کہاکہ ٓاپ جوڈیشل کونسل کے اختیار کو محدود کر رہیے ہیں ۔منیر اے ملک نے کہاکہ دائرہ اختیار یا بد نیتی کے معاملے پر سپریم کورٹ میں آ یا جاسکتا ہے ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ اس کیس کے اٹھائے گئے نکات کونسل کے سامنے بھی اٹھائے گئے ہیں ،فیکٹ فائنڈنگ کے فورم کے پاس یقینی طور پر اختیارات کم ہوتے ہیں ۔منیر اے ملک نے کہاکہ میں معروضات پیش کرونگا کہ عدالت خود اس معاملے کو دیکھے سپریم جوڈیشل کونسل کو نہ بھیجے۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا کونسل بدنیتی پر مس کنڈکٹ پر دائر ریفرنس خارج کر دے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ آئین نے جوڈیشل کونسل کو عدالت کا اختیار نہیں دیا،صدارتی ریفرنس کو کونسل واپس نہیں بھیج سکتی،صدارتی ریفرنس پر کونسل نے اپنی رائے دینا ہوتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کیا کونسل یہ کہہ سکتی ہے کہ ریفرنس غلط بھیجا گیا،آرٹیکل 209 کے تحت مناسب شواہد کی تسلی ہونے پر صدر مملکت ریفرنس کونسل کو بھیجے گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جس جج کیخلاف ریفرنس ہو وہ سوالات کیسے اٹھا سکتا ہے۔جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں چیف جسٹس اور سینئر جج ہوتے ہیں،جوڈیشل کونسل میں ہائیکورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی ہوتے ہیں،سپریم جوڈیشل کونسل بلاوجہ کسی جج کو ہٹانے کا نہیں کہہ سکتی،کونسل ایگزیکٹو کا حصہ نہیں ہے،صدر مملکت جج کیخلاف مواد اکٹھا کر کے ریفرنس بھیج سکتا ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ دیکھنا یہ ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس اپنا ذہن اپلائی کر کے بھیجا ہے،دیکھنا ہے کہ صدر مملکت نے ریفرنس کابینہ یا وزیر اعظم کی سفارش پر تو نہیں بھیجا۔ منیر اے ملک نے کہاکہ کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں نہیں ہوتی،عدالت میں کاروائی اوپن ہوتی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ جج کونسل کی کاروائی اوپن کرنے کا کہہ سکتا ہے،جسٹس شوکت عزیز صدیقی ریفرنس میں کاروائی کھلی عدالت میں ہوئی،جج کونسل کو کاروائی اوپن کرنے کی درخواست کر سکتا ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ آئینی سوالات کا جواب عدالت عظمی دے سکتی ہے۔منیر اے ملک نے 1971 کے فل کورٹ ریفرنس کا حوالہ دیا ۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ بلاشبہ یہ ایک سیریس ایشو ہے،عدالت عظمی میں معاملہ آنے سے کونسل کی ساری کارروائی منجمد ہو جائے گی۔ انہوںنے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کیخلاف جج 184/3 کی درخواست دے سکتا ہے،جج کونسل کی کارووائی کھلی عدالت میں کرنے کی درخواست دے سکتا ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ موقف یہ بھی ہے کہ کونسل نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا،کونسل کے طریقہ کار پر بھی الزمات لگائے گئے ہیں،آرٹیکل 248 کے تحت وزیر اعظم اور وزرا اپنے فیصلوں پر کسی عدالت کو جوابدہ نہیں۔ انہوںنے کہاکہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام پر کسی کو استثنی حاصل نہیں،وزیر اعظم اور وزرا آئین و قانون کے پابند ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ درخواست میں وزیر اعظم اور صدر مملکت پر براہ راست کونسا الزام ہے۔

منیر اے ملک نے کہاکہ جن لوگوں پر بدنیتی کا الزام ہے انکو فریق بنانا بھی لازم ہے،قانون کی عملداری اور بدنیتی پر بھی استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا،وزیر اعظم,صدر مملکت اور وزیر قانون کو اس کاروائی کا حصہ بننا چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ سوال یہ ہے کہ ان شخصیات کی بدنیتی ریکارڈ پر موجود ہے یا نہیں۔ منیر اے ملک نے کہاکہ ریکارڈ پر ان شخصیات کی قانونی اور حقائق پر بدنیتی موجود ہے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ یہ بتائیں ریفرنس میں کہاں بدنیتی کی گئی۔ منیر اے ملک نے کہاکہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کرنا غیر آئینی ہے،صدر مملکت نے ریفرنس پر اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا،صدر مملکت نے تسلیم کیا کہ انھوں نے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل کیا،صدر مملکت نے اپنا آئینی اختیار استعمال نہ کر کے غیر آئینی اقدام کیا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا ریفرنس میں لکھا ہے کہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی نہیں کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کرنا ہے تو کیا سارا مواد انکی نگرانی میں اکٹھا ہونا چاہئے۔ جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ بھی ممکن ہے کہ وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مملکت نے اپنا ذہن اپلائی کر کے ریفرنس بھیجا ہو۔ منیر اے ملک نے کہاکہ وفاقی کابنیہ سے بھی ریفرنس کی منظوری نہیں لی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کس قانون کے تحت جج کیخلاف مواد اکٹھا کیا گیا،کسی اتھارٹی کی اجازت سے کسی کیخلاف مواد اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ منیر اے ملک نے کہاکہ صدر مملکت کو اپنا ذہن اپلائی کرنا چاہئے تھا کہ مواد کس طرح سے اکٹھا ہوا۔ بعد ازاں کیس کی سماعت (آج) منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی