افغانستان سے فوجیں نہیں نکال رہے. امریکی فوج کے سربراہ کا انٹرویو

مشن ابھی مکمل نہیں ہو امریکا پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنے کا مشن جاری ہے. جنرل مارک ملے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 12 نومبر 2019 15:04

افغانستان سے فوجیں نہیں نکال رہے. امریکی فوج کے سربراہ کا انٹرویو
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔12 نومبر ۔2019ء) امریکی فوج کے سربراہ نے پیش گوئی کی ہے کہ 18 سال سے افغانستان میں موجود امریکی دستے مزید کئی برسوں تک وہاں رہیں گے. امریکی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میںچیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارک ملے نے کہا کہ واشنگٹن نے افغانستان میں اپنی افواج اس لیے بھیجی تھیں کہ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے لیے افغانستان کو مبینہ طور پر بیس کے طور پر استعمال کیا گیا تھا‘ افواج کی اس تعیناتی کا واحد اور واضح مقصد اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ افغانستان دوبارہ ان انتہا پسندوں کی جنت نہ بن پائے جنہوں نے امریکا میں حملہ کیا تھا.

(جاری ہے)

جنرل مارک ملے نے کہا کہ مشن ابھی مکمل نہیں ہو افغانستان کو امریکا پر حملے کی منصوبہ بندی کرنے والے دہشت گردوں کی جنت بننے سے روکنے کے لیے مشن جاری ہے اور 18 سال سے جاری ہے. انہوں نے کہا کہ اس مشن کو کامیاب بنانے کے لیے حکومت افغانستان اور افغان سیکورٹی فورسز کو اپنی داخلی سلامتی بہتر بنانے کے قابل ہونا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کو ان کی سرزمین استعمال کرکے دیگر ممالک بالخصوص امریکا پر حملہ کرنے سے روکا جائے.

امریکی فوجی سربراہ کا یہ بیان صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیانیے کی تائید نہیں کرتا کہ وہ افغانستان میں ختم ہوتی ہوئی جنگ میں امریکی افواج کو مزید رکھنا نہیں چاہتے اور افواج کے انخلا کا راستہ نکالنے کے لیے انہوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کی اجازت بھی دی تھی. ستمبر 2018 میں امریکا اور طالبان کے درمیان شروع ہونے والی بات چیت اس نتیجے پر پہنچنے والی تھی کہ افغانستان میں پائیدار امن اور امریکی افواج کے انخلا کا معاہدہ طے پایا جائے رواں برس ستمبر میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا کہ انہوں نے 11 ستمبر کے ہفتے کے اختتام پر افغان صدر اشرف غنی اور سینئر طالبان رہنما کو واشنگٹن کے نزدیک صدارتی ریزورٹ میں مدعو کیا تھا.

تاہم افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونے والے دہشت گردی کے سلسلہ وار حملوں میں امریکی اور نیٹو فوجیوں کی ہلاکت پر انہوں نے دعوت واپس لے لی تھی بلکہ طالبان کے ساتھ ہونے والے مذاکرات بھی ختم کردیے تھے. جس کے بعد گزشتہ ماہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد مذاکرات بحال کرنے کی گنجائش تلاش کرنے ایک مرتبہ پھر خطے کے دورے پر آئے تھے چنانچہ اب لگتا ہے کہ امریکی، امن معاہدے کے سلسلے میں اہم کردار نبھانے کے لیے اب افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں اور 18 سال سے جاری اس جنگ کے خاتمے کے لیے روس اور چین سے مدد حاصل کرنے کے خواہاں ہیں.