Live Updates

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے سی پی این ای کے وفد کی ملاقات

اشتہارات کے واجبات کی وصولیوں میں حائل تمام مشکلات کریں گے‘ وزیر اعلیٰ سندھ کی یقین دہانی سی پی این ای کے صدر عارف نظامی کی قیادت میں سی پی این ای اسٹینڈنگ کمیٹی کے اراکین نے ملاقات کی

منگل 12 نومبر 2019 20:24

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے سی پی این ای کے وفد کی ملاقات
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 نومبر2019ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کونسل آف پاکستان نیوزپیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کے وفدنے صدر عارف نظامی کی قیادت میں ملاقات کی۔ وزیراعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں سی پی این ای عہدیداران نے اخبارات کے واجبات کی بروقت ادائیگیوں اور دیگر مسائل پر بات چیت کی۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے تمام ایڈیٹرز کو خوش آمدیدکہا اور بتایا کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں اپوزیشن کی حکومت ہے، اگر ہم آئین کی پاسداری کریں تو کوئی مسئلہ نہیں، ہمارے وفاقی قانون سازی کے دو حصے ہیں، ایک کو وفاقی حکومت خود چلاتی ہے اور دوسری سی سی آئی چلاتی ہے،۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ سی سی آئی میں سب سے اوپر ریلوے، پانی وغیرہ ہیں لیکن نہ تو ریلوے کی وزارت سندھ حکومت سے بات کرنے کیلئے تیار ہے اور نہ کوئی اور، اگر وزیراعظم کسی اور پارٹی کا ہے اور میں کسی دوسرے جماعت سے، اس سے فرق نہیں پڑتا، ہم سب کو عوام نے اختیار دیا ہے کہ ہم انکی خدمت کریں۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میں وزیراعظم کا استقبال نہیں کرتا، یہ بات غلط ہے، وزیراعظم کا پورا پروگرام آتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کون کہاں استقبال کرے گا اور کون کہاں ملے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے بتایا کہ جب پہلی بار وزیراعظم آئے تھے تو میرا استقبال کرنے کیلئے پروگرام میں نام شامل تھا، میں نے خود ان کا استقبال کیا۔ اس کے بعد جب وزیراعظم آئے میری اجلاسوں میں یا ملاقات نہیں لکھی گئی، اب گورنر کہتا ہے وزیراعلیٰ جب چاہیں مل سکتے ہیں، اس طرح تو نہیں ہوتا، بغیر پروگرام کے تو آپ مختیار کار سے بھی نہیں مل سکتے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ جام شورو، سیہون سڑک پر بہت حادثات ہوتے ہیں، میں نے وفاقی حکومت سے درخواست کی کہ اس سڑک کو دو رویہ کریں، وفاقی حکومت نے کہا کہ سندھ حکومت آدھی رقم دے، ہم نے اپریل 2017 کو وفاقی حکومت کو 7 بلین روپے دیئے، میں نے وزیراعظم عمران خان کو لکھا کہ سڑک پر کام بہت سست ہورہا ہے، وزیراعظم نے وزیر مملکت مراد سعید کو کہا کہ سندھ حکومت کے ساتھ کوآرڈینیٹ کریں، جب مراد سعید کراچی آئے تو مجھے پیغام آیاکہ اگر آپ نے ملنا ہے تو گورنر ہائوس آئیں، میں نے شائستگی سے منع کیا کہ مناسب نہیں، پھر مراد سعید نے کہا کہ میں وزٹ پر جا رہا ہوں، وزیراعلیٰ سندھ وہیں آئیں، اس مراد سعید کے رویہ کے بعد مراد سعید کو پروموٹ کرکے وزیر مملکت سے وفاقی وزیر بنایا گیا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ میرے گورنر کے ساتھ کوئی اختلافات نہیں، ہم ملتے ہیں، وفاقی حکومت اگر ترقی گورنر کے ذریعے کروانا چاہتی ہے تو یہ غلط ہے، میں نے وزیراعظم کو مختلف خطوط لکھے ہیں لیکن ایک کا بھی جواب نہیں آیا، میں وفاقی وزیر سے ملتا ہوں کام کے حوالے سے بات بھی ہوتی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ کراچی میں جام چاکرو، گوندپاس اور اب ایک دھابیجی کے پاس لینڈفل سائیٹس ہیں، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ 2013 کے بعد میں ایڈمنسٹریٹر لوکل باڈیز چلا رہے تھے، اس وقت صرف 6000 ٹن کچرا اٹھایا جا رہا تھا، ہم نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ بنایا، ایس ایس ڈبلیو ایم اے بنانے کا مقصد کچرے کو صرف سائینٹیفک طریقے سے اٹھانا مقصد نہیں تھا بلکہ کچرے کو بھی استعمال کرنا تھا، ہم کچرے سے بجلی بھی پیدا کریں گے، ایس ایس ڈبلیو ایم نیا ادارہ ہے اوروہ بہتر انداز میں کام کر رہا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہم نے کراچی میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے ہیں، اس شہر کی جتنی خدمت پیپلز پارٹی حکومت نے کی ہے اتنی کسی نے نہیں کی، ہم نے اس شہر کو امن امان دیا، خوبصورتی بحال کر رہے ہیں، ترقیاتی کام کر رہے ہیں، اانڈسٹریل سیکٹر کو مضبوط کر رہے ہیں، ہم نے گذشتہ تین سالوں میں کے ایم سی کو 41 بلین روپے دیئے ہیں، نکاسی آب کا نظام بہتر کر رہے ہیں، پانی دے رہے ہیں، ہم نے کوئی آن لائین ٹیکسی سروس کو بند نہیں کیا۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ نواز شریف کے علاج پر وفاقی حکومت کا رویہ افسوسناک ہے، آصف علی زرداری صحت کی خرابی کی وجہ سے آج عدالت نہیں جا سکے، آپ (وزیراعظم)سے این آر او کون مانگ رہا ہے، آپ کسی کو این آر او دے سکتے ہو وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ بحریہ ٹائون کی اراضی کی رقم جمع ہوئی ہے ابھی تک ہمیں نہیں ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا پہلے دن سے موقف ہے کہ ہم کسی دھرنے کا حصہ نہیں بنیں گے، ہم دھرنوں کے ذریعے حکومت گرانے میں یقین نہیں رکھتے۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے 162 بلین روپے کراچی کو دینے کا وعدہ کیا تھا ان میں سے 162 روپے بھی نہیں ملے، مجھے اسد عمر کیلئے بہت عزت ہے، ہم نے ساتھ کام کیا ہے، اسد عمر کو غیر سنجیدگی سے فارغ کیا گیا، وہ ٹھیک نہیں تھا، وفاقی حکومت اگر کراچی میں ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہے تو میں ہر طرح کی مدد کرونگا۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ جولائی سے اکتوبر تک وفاقی حکومت نے 109 بلین روپے کم دیئے ہیں، وفاقی حکومت نے گذشتہ سال کی رائلٹی کے 7 بلین روپے کل دیئے ہیں، یہ وفاقی حکومت نے ہمارے پیسے رکھے ہوئے ہیں سندھ حکومت کا تنخواہوں کا بل 45 بلین روپے ہے، وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ دودھ کی قیمتوں کو کنٹرول کر رہے ہیں۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ نے محکمہ اطلاعات کے ذمے ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے ذریعے جاری شدہ اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ یہ سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اخبارات اور دیگر میڈیا کو حکومت سندھ کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہارات کے واجبات کی ادائیگی کو یقینی بنائے۔ قبل ازیں صدر سی پی این ای عارف نظامی نے اخبارات کے مسائل اور موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔

اس موقع پر انہوں نے سندھ حکومت کا بھی شکریہ ادا کیا۔ قبل ازیں سیکریٹری جنرل سی پی این ای ڈاکٹر جبار خٹک نے حکومت سندھ کی جانب سے جاری کیے گئے اشتہارات کے واجبات کی وصولی کے ضمن میں حائل مشکلات کی جانب توجہ مرکوز کرائی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراطلاعات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت سندھ نے صرف دس اخبارت کو سرکاری اشتہارات کی فراہمی کا فیصلہ کیاہے۔

چھوٹے، بڑے تمام اخبارات کو اشتہارات کا جائز حصہ دیا جائے گا البتہ ڈمی اخبارات کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ اجلا س کے دیگر شرکاء میں سی پی این ای کے نائب صدر انور ساجدی، ڈپٹی سیکریٹری جنرل عامر محمود، سابق سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، فنانس سیکریٹری حامد حسین عابدی، سینئر ممبر طاہر نجمی، نمائندہ نائب صدر پنجاب سعید خاور، انفارمیشن سیکریٹری عبدالرحمان منگریو، سینئر ممبر مقصود یوسفی، جوائنٹ سیکریٹری سندھ غلام نبی چانڈیو، جوائنٹ سیکریٹری بلوچستان عارف بلوچ، محمد عرفان، عبدالخالق علی، بشیر میمن، محمود عالم خالد، محمد طاہر، شیر محمد کھاوڑ، مظفر اعجاز، سلمان قریشی، عثمان عارب ساٹی، منزہ سہام اور بلقیس جہاں شامل تھے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات