Live Updates

اراکین سینٹ کا مقبوضہ کشمیر میں کرفیو اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقوام عالم کی خاموشی پر سخت تشویش کا اظہار

مودی کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقدام پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے،عمران خان سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی قیادت کو کشمیر پر اکٹھا کریں ،ہمیں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی بجائے انسانی حقوق کے مسئلے کو اجاگر کرنا ہو گا،بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے ساتھ تجارت نہیں کی جاسکتی ، سراج الحق ،بیرسٹر سیف ،لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبد القیوم ، شہزاد وسیم کا اظہار خیال رضا ربانی کی او آئی سی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کردار ادا نہ کرنے پر احتجاجا پاکستان کی رکنیت معطل کرانے کی تجویز

بدھ 13 نومبر 2019 20:18

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 نومبر2019ء) اراکین سینٹ نے مقبوضہ کشمیر میں مسلسل کرفیو اور بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور اقوام عالم کی خاموشی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ مودی کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقدام پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے،عمران خان سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر تمام سیاسی قیادت کو کشمیر پر اکٹھا کریں ،ہمیں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی بجائے انسانی حقوق کے مسئلے کو اجاگر کرنا ہو گا،بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے ساتھ تجارت نہیں کی جاسکتی جبکہ سابق چیئر مین سینٹ سینیٹر میاں رضا ربانی نے او آئی سی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے کردار ادا نہ کرنے پر احتجاجا پاکستان کی رکنیت معطل کرانے کی تجویز پیش کردی۔

(جاری ہے)

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پربحث بدھ کو دوسرے روز بھی جاری رہی۔ سینیٹر محمد علی سیف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہماری مختلف ایشوز پر واضح پالیسی نہیں،وقتی سیاسی فوائد کو دیکھتے ہوئے پالیسیز مرتب کرتے ہیںجس کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر ایشوز کی اہمیت اجاگر نہیں ہو گا۔ انہوںنے کہاکہ وقتی مفادات دیکھ کر پالیسیاں مرتب کرنے سے مقدس گائے پیدا ہوتے ہیں۔

انہوںنے کہاکہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان سے بھی پرانا مسئلہ ہے،ہم نے کبھی بھی اس مسئلہ کو علمی انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔انہوںنے کہاکہ تقسیم ہند کے پلان میں برطانوی نوآبادیاتی علاقے فوکس تھے۔انہوںنے کہاکہ آزاد ریاستیں تقسم ہند پلان کا حصہ نہیں تھے۔انہوںنے کہاکہ ان ریاستوں کوآزاد حیثیت برقرار رکھنے، پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کا اختیار دیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ ہندوستان نے کشمیر کے تاریخ کو برہمن سے جوڑا۔انہوںنے کہاکہ ہم صرف کشمیر پر تقاریر کرتے رہے،مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مگر انہوں نے ڈی فیکٹو حقیقت پیدا کر دی،ہمیں اس ڈی فیکٹو حقیقت کا ادراک کرنا ہو گا،حق خود ارادیت کا تعلق لوگوں سے سے جغرافیائی سے نہیں،مودی نے کشمیر کو ترقی دینے کیلئے دفعہ 370اور35اے کو ختم کرنے کا جواز پیش کیا۔

انہوںنے کہاکہ جب تک لوگوں کی مرضی شامل نہ ہو ترقی کا جواز بالکل بے معنی ہے،اگر سونے کی سڑکیں بھی بنائے تو اس دلیل کی کوئی اہمیت نہیں،ہمیں عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کی بجائے انسانی حقوق کے مسئلے کو اجاگر کرنا ہو گا۔انہوںنے کہاکہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا جواز پیش کر کے ہندوستان نے مشرقی پاکستان میں مداخلت کیحالانکہ پاکستانی فوج اپنی ریاستی حدود کا تحفظ کر رہی تھی،مکتی باہنی کے تحفظات ہمارا اندرونی معاملہ تھا،اگر اس اسوقت ہندوستان کا موقف درست تھا تو اس وقت پاکستان کو کشمیر میں مداخلت کرے بھی تو درست ہو گا۔

سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کے ساتھ تجارت نہیں کی جاسکتی،امریکہ اور مالیاتی اداروں نے ہیومن رائٹس کو سلیکٹیولی استعمال کیا ہے،یہ بات پاکستان اور ایران کیلئے درست ہے مگریہ بات ہندوستان اور اسرائیل کیلئے درست نہیں،عالمی اداروں کا دوہری معیار ہے۔

انہوںنے کہاکہ اب یہ حقیقت بن چکا ہے کہ ہندوستان ایک ہندو فاشسٹ ریاست ہے،ہندوستان وہ ملک ہے جس میں بیس کے قریب سرکاری زبانیں ہیں،ہندوستان کے کئی ریاستوں نے وقتاًفوقتاً ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائیں،پہلے ہندوستان کی وفاق کی بنیاد مضبوط ادارے تھے،اب اکثریت کی بنیاد پر وہ بنیادیں لڑکھڑا گئی ہیں،حقیقی ہندوستان میں ریکارڈ بے روزگاری،خوراک کی کمی،تعلیم کی کمی ہیں،مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر نام نہاد بھارتی سپریم کورٹ کا چہرہ عیاں ہوگیا۔

انہوںنے کہاکہ بھارتی عدالتیں عام شہریوں جو ضمانت دیتی ہیں وہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کو دینے کیلئے تیار نہیں۔انہوںنے کہاکہ آج آسام حکومت نے 20 لاکھ سے زائد لوگوں کو غیر ملکی قرار دیا،آج حکومت مقبوضہ کشمیر پر سیاسی لوگوں کی ضمانت سے متعلق کیوں خاموش ہیں ،کیوں حکومت ایشو کو انٹرنیشنلائز کرنے سے شرما رہی ہی ،کیوں سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ اس ایشو کو نہیں اٹھائے گئی ۔

انہوںنے کہاکہ سعودی عرب اور یو اے ای کے ہندوستان کیساتھ مالیاتی مفادات جڑے ہیں۔انہوںنے کہاکہ او آئی سی جو کہ مردہ ہو چکی ہے کو اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے کرفیو کو ختم کروائے۔انہوںنے کہاکہ او آئی سی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے کا جائزہ لینے کیلئے آبزرز بھیجیں۔انہوںنے کہاکہ اگر او آئی سی ایسا نہیں کرتی تو پاکستان کوازخود عارضی طور پرآئی سی سیالگ ہونا چاہئے،اگر یو این سکیورٹی کونسل عراق اور شام میں مدخلت کر سکتی ہے تو مقبوضہ کشمیر میں کیوں نہیں ۔

لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم نے کہا کہ مودی کا مقبوضہ کشمیر سے متعلق اقدام پاکستان کی سلامتی کیلئے بھی خطرہ ہے۔ انہوںنے کہاکہ ہندوستان کے راہنما آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر حملے کی باتیں کر رہے ہیں،اس اہم بحث کے دوران وزیراعظم کو ایوان میں ہونا چاہئے تھا،ہندوستان نے جو قدم ستر سالوں میں نہیں اٹھا اب اٹھانے کی نوبت کیوں آئی ،مقبوضہ کشمیر کے اندرونی جدوجہد آزادی نے مودی کو مایوس کیا،ہندوستان افغان امن عمل سے باہر ہو گیا،سی پیک کی وجہ سے بی ہندوستان کو مایوسی ہوئی۔

سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ اگر حکومت سیریس ہو تو میں کشمیر پر پوری اپوزیشن کو اکٹھا کر سکتا ہوںمگر آدھا گھنٹہ اکٹھے ہونے یا چند نعروں سے کشمیر آزاد نہیں ہو سکتا۔ انہوںنے کہاکہ ہماری فوج بھی دیکھ اور انتظار کی پالیسی پر ہے،ہمیں کشمیر کے معاملے میں سوچ سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ شہزا دوسیم نے کہاکہ کشمیر بھارت کا اندرونی مسئلہ کسی بھی طور نہیں ہے، ہندوتوا آئیڈیالوجی کا بھارت میں آغاز گجرات قتل عام سے کیا گیا۔

انہوںنے کہاکہ کشمیر کے مسئلہ کو آج دوبارہ بین الاقوامی حیثیت حاصل ہوچکی ہے، وزیراعظم عمران نے اقوام متحدہ میں مودی کو بھرپور جواب دیا، یہ تاریخی تقریر تھی۔انہوںنے کہاکہ ہم کشمیر کے مسئلہ سے ہٹ کر کشمیر کمیٹی کے مسئلہ میں پھنسے ہوئے ہیں، کشمیر کے دریا پاکستان کو سیراب کرتے ہیں، ھم کشمیر کے لئے کٹ سکتے ہیں۔بعد ازاں سینیٹ کا اجلاس (آج) جمعرات کو دوپہر تین بجے دوبارہ ہوگا جس پر مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بحث کو سمیٹا جائیگا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات