Live Updates

ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں،

معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں، حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجہ میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے، ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جبکہ درآمدات میں کمی آئی ہے، سٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے،ہم نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں جن کی بدولت پاکستان کی ایز آف ڈوئنگ بزنس ریٹنگ میں 28 پوائنٹس بہتری آئی ہے جس کا ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اعتراف کیا ہے، ہم نے ملک کو بدلنا ہے، ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تاکہ وہ بھی ملکی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیں، سی پیک منصوبے سے ملکی معاشی ترقی کا ایک نیا باب روشن ہوگا، حکومت ٹیکس نظام کی بہتری کے سلسلہ میں پیش کی جانے والی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ٹیکس افسران کے تجربہ سے استفادہ کیا جائے گا وزیرِاعظم عمران خان کا ایف بی آر کے سینئر افسران سے ملاقات کے دوران اظہار خیال

بدھ 13 نومبر 2019 23:41

ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 نومبر2019ء) وزیرِاعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں، معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں، حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجہ میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے، ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جبکہ درآمدات میں کمی آئی ہے، سٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سینئر افسران سے ملاقات کے دوران کیا۔ ملاقات میں مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ، مشیر تجارت عبدالرزاق دائود، معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ایف بی آر کے سینئر افسران موجود تھے۔

(جاری ہے)

وزیرِاعظم عمران خان نے افسران سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ایک ایسا ملک جہاں صدقات و خیرات اور فلاح و بہبود کے کاموں میں عوام سبقت لیتی ہے وہاں ٹیکس اکٹھا کرنے کی شرح سب سے کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں انہوں نے سب سے زیادہ پیسہ اکٹھا کیا ہے، شوکت خانم دنیا کا وہ واحد ہسپتال ہے جہاں کینسر جیسے مرض کا جس کا علاج مہنگا ترین علاج شمار ہوتا ہے وہاں 75 فیصد مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور یہ سارا پیسہ لوگوں کے عطیات سے اکٹھا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوکت خانم کے بعد انہوں نے نمل یونیورسٹی کی تعمیر کی جہاں 90 فیصد غریب بچوں کو بین الاقوامی معیار کی تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے، نمل یونیورسٹی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں پاکستانی عوام نے نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالا بلکہ اس کی توسیع میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف تو پاکستانی عوام کی جانب سے انسانی خدمت کا یہ مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن جب دوسری طرف ملک کیلئے ٹیکس کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو تعجب ہوتا ہے کہ یہاں ٹیکس دینے کی شرح سب سے کم ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ جب بھی کاروباری طبقہ سے ملے ہیں ان سب کا اتفاق تھا کہ ایف بی آر پر لوگوں کا اعتماد نہیں ہے اور کاروباری طبقہ میں ایف بی آر سے متعلق ایک خوف پایا جاتا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان آج ایک دوراہے پر کھڑا ہے، ماضی میں جس طرح اس ملک کو چلایا جا رہا تھا یہ ملک اب مزید اس طرح نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے جب ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک تاریخی معاشی مسائل کا شکار تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ بڑا مسئلہ ملک کی نوجوان آبادی جو کہ کل آباد ی کا 60 فیصد ہے اس کے ٹیلنٹ کو بروئے کار لانا ہے، نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ان کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کا جزو بنانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ملک میں ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ پر توجہ دینے کے لئے ضروری ہے کہ مطلوبہ مالی وسائل موجود ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ چیلنج اور بھی بڑھ جاتا ہے جب ملکی آمدنی کا تقریباً آدھا حصہ ملکی قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگیوں میں چلا جاتا ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ اس ملک کے پوٹینشل سے اچھی طرح واقف ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ ہمارے ملک میں 8 کھرب ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔

وزیرِاعظم عمران خان نے ایف بی آر کے افسران سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ملک کے مالی وسائل کو بڑھانے اور معاشی طور پر ترقی دینے میں ان کا کلیدی کردار ہے، جب تک اس ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی کے عمل کو ایک ذمہ داری اور فریضہ نہیں سمجھا جائے گا ملک ترقی نہیں کر پائے گا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ آج کی ملاقات کا مقصد ٹیکس کے نظام میں اصلاحات لانے کیلئے ٹیکس افسران کا فیڈ بیک اور ان سے تجاویز حاصل کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معاشی ترقی کیلئے ہم نے کاروباری طبقہ اور عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک عوام کا ٹیکس کے نظام پر اعتماد بحال نہیں ہو گا ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر پائے گا۔ وزیرِاعظم نے افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ٹیکس کے نظام میں جو بھی اصلاحات لائی جائیں ان میں ایف بی آر کے افسران کی آراء اور تجاویز شامل ہوں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایف بی آر کے افسران کے تجربات سے استفادہ کرنا چاہتی ہے۔ ٹیکس نظام، ماضی میں حکومتی شہ خرچیوں اور بے جا اخراجات کی وجہ سے عوام کا اعتماد متاثر ہونے سے متعلق ایک سوال پر وزیرِ اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ اگر عوام اپنے خون پسینے کی کمائی کو بے جا اخراجات اور حکومتی شہ خرچیوں کی نذر ہوتے دیکھتے ہیں تو ان کا ٹیکس کے نظام پر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے دن سے کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کی جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ اخراجات میں کٹوتی، غیر ضروری اخراجات میں کمی اور کفایت شعاری کی مہم انہوں نے اپنی ذات اور وزیرِاعظم آفس سے شروع کی۔ انہوں نے کہا کہ وزیرِاعظم آفس کے خرچے میں 30 کروڑ تک کمی لائی گئی ہے، چونکہ وہ اپنے ذاتی گھر میں رہتے ہیں اس لئے وزیرِاعظم ہائوس کا خرچہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی ذاتی رہائشگاہ کے اطراف میں سیکورٹی کے تقاضوں کے تحت باڑ لگانے کا معاملہ آیا تو اس کیلئے پیسہ سرکاری خزانہ سے نہیں لیا گیا، گھر کی سڑک خراب تھی تو اس کی مرمت بھی سرکاری خزانہ کی بجائے ان کی اپنی جیب سے کی گئی۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت نے کفایت شعاری کی مہم کو مدنظر رکھتے ہوئے ماضی کے مقابلہ میں 45 ارب روپے کم خرچہ کیا ہے، فوج نے اپنے اخراجات میں کمی کی ہے اور بجٹ میں کٹوتی کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی کابینہ ممبران کے بیرونی ممالک کے غیر ضروری دوروں پر مکمل پابندی عائد کر رکھی ہے تاکہ عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ پیسے کی ایک ایک پائی کی حفاظت کی جائے۔ انہوںنے کہا کہ ہمارے ملک کا مسئلہ یہی رہا ہے کہ جو اقتدار میں آیا اس نے سرکاری وسائل اور عوامی پیسوں کو اپنی ذات پر خرچ کرنا اپنا حق سمجھا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں گورنر ہائوس مری کی تزئین و آرائش پر 83 کروڑ روپے خرچ کئے گئے، اس کے برعکس موجودہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ تمام گورنر ہائوسز اور سرکاری ریسٹ ہائوسز کو بروئے کار لایا جائے اور ان سے آمدنی پیدا کی جائے تاکہ ان پر سرکار کا خرچہ نہ ہو۔

وزیرِاعظم نے کہا کہ ہم نے مائنڈ سیٹ تبدیل کرنا ہے۔ ماضی کے حکمرانوں اور اپنے غیر ملکی دوروں کا تقابل کرتے ہوئے وزیرِاعظم نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے دور میں واشنگٹن کے دورے پر اخراجات 8 لاکھ ڈالر تھے، (ن) لیگ کے دور میں ایک دورہ 7 لاکھ ڈالر میں ہوا جبکہ وہی دورہ جب انہوں نے کیا تو اس پر محض 65000 ڈالر خرچ آیا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں دورے کے دوران اٹھنے والے اخراجات کے بارے میں وزیرِاعظم نے کہا کہ سابق صدر آصف زرداری کا دورہ 12 لاکھ ڈالر، سابق وزیرِاعظم نواز شریف کا دورہ 11 لاکھ، سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی کا دورہ 8 لاکھ میں مکمل ہوا جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں اسی دورے کے اخراجات محض ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر تک محدود رکھے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ عوام کا پیسہ بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ کفایت شعاری کی مہم کا مقصد عوام کا اعتماد بحال کرنا ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ ماضی کی حکومتوں نے اربوں روپے اپنی تشہیر کیلئے خرچ کئے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ اس وقت ملک میں ٹیکس اور ملکی پیدوار کی شرح بہت کم ہے جو کہ برصغیر میں بھی سب سے کم ترین ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس شرح کو ہم نے بہتر بنانا ہے۔ ایک سوال کے جواب پر وزیرِاعظم نے کہا کہ وہ جانتے ہیں کہ ایف بی آر بھی اسی معاشرے کا ایک حصہ ہے، اگر معاشرے میں مجموعی طور پر اخلاقیات کا درجہ کم ہو اور کرپشن میں اضافہ ہو تو ایف بی آر بھی یقیناً اس سے متاثر ہو گا لیکن ہم نے اس میں بہتری لانی ہے۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے بغیر ملک نہیں چل سکتا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں تعلیم، صحت و دیگر سہولتوں کی بہتری کیلئے ضروری ہے کہ اس کیلئے درکار مالی وسائل اکٹھے کئے جائیں۔ وزیرِاعظم نے ایف بی آر افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملک کے مستقبل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس اکٹھا کرنا ایک قومی فریضہ ہے جس پر ملکی ترقی کا انحصار ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیرِاعظم نے کہا کہ ماضی میں قومیانے کی پالیسی سے معاشی عمل اور صنعتی ترقی کو بے تحاشا نقصان پہنچا۔

انہوں نے کہا کہ دولت اور وسائل کی معاشرے میں منصفانہ تقسیم کیلئے مزید بہتر طریقے اختیار کئے جا سکتے تھے لیکن 70ء کی دہائی میں جو پالیسی اختیار کی گئی اس سے دولت بنانے کے عمل کو جرم گردانہ گیا اس سے نہ صرف صنعتی ترقی کا عمل جمود کا شکار ہوا بلکہ کاروباری برادری کے اعتماد کو ناقابل تلافی ٹھیس پہنچی۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غربت کے خاتمہ کیلئے ضروری ہے کہ کاروباری عمل تیز ہو، لوگ منافع بخش کاروباری سرگرمیاں سر انجام دیں، معاشی عمل تیز ہونے سے نوکریوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور لوگ غربت سے نکلتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں 70ء کروڑ لوگوں کو غربت سے نکالا گیا۔ وزیرِاعظم نے کہا کہ حکومت کی معاشی اصلاحات کے نتیجے میں معیشت میں بہتری اور استحکام آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کاروبار میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے اقدامات کئے ہیں جن کی بدولت پاکستان کی ایز آف ڈوئنگ بزنس ریٹنگ میں 28 پوائنٹس بہتری آئی ہے جس کا ورلڈ بینک اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اعتراف کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا یہ ماننا ہے کہ کاروباری برادری کیلئے جس قدر آسانیاں ہوں گی ملک اتنا جلدی ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک ایک دوراہے پر کھڑا ہے ہم نے اس ملک میں اصلاحات متعارف کرانے کا عمل شروع کر دیا ہے جس سے معاسی اعشاریوں میں بہتری آ رہی ہے، آج ملک کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ کم ہو رہا ہے، ملکی برآمدات میں بڑھوتری جبکہ درآمدات میں کمی آئی ہے، سٹاک مارکیٹ میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ملک کو بدلنا ہے، ہم نے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بحال کرنا ہے تاکہ وہ بھی ملکی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک منصوبے سے ملکی معاشی ترقی کا ایک نیا باب روشن ہوگا۔ اس صورتحال میں ٹیکس نظام کی بہتری انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور اس ضمن میں ٹیکس افسران کا کلیدی کردار ہے۔ وزیراعظم نے ایف بی آر افسران کو یقین دلایا کہ حکومت ٹیکس نظام کی بہتری کے سلسلہ میں پیش کی جانے والی تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی اور ٹیکس افسران کے تجربہ سے استفادہ کیا جائے گا۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات