بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ وار جنریشن جاری رکھے ہوئے ہے،

صدارتی آرڈیننس کی آئین میں اجازت ہے لیکن اسے ایوان میں پیش کرنا ضروری ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کام قانون سازی ہے،سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین کا اظہار خیال

جمعرات 14 نومبر 2019 21:24

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 نومبر2019ء) سینیٹ میں اپوزیشن کے اراکین نے کہا ہے کہ بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ وار جنریشن جاری کھے ہوئے ہے، صدارتی آرڈیننس کی آئین میں اجازت ہے لیکن اسے ایوان میں پیش کرنا ضروری ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کام قانون سازی ہے، صدر ایسے حالات میں آرڈیننس جاری کر سکتے ہیں جب قانون سازی ممکن نہ ہو سکے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں جمعرات کو ایوان بالا میں پی ایم ڈی سی کو آرڈیننس کے ذریعے تحلیل کرنے، میڈیا پر پابندیوں اور ملکی معاشی صورتحال سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ پر تحاریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کیا۔ سینیٹر عبدالرحمان ملک نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کے خلاف ففتھ وار جنریشن جاری رکھے ہوئے ہے، مودی پر مالی دہشت گردی ثابت ہو چکی ہے، ایف ٹی ایف کو ان کے خلاف کارروائی کے لئے خط لکھا، ہمیں دفاع کی بجائے جارحانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے حوالے سے امریکہ کی کنٹری رپورٹ مسترد کرتا ہوں۔

(جاری ہے)

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ صدارتی آرڈیننس کی آئین میں اجازت ہے لیکن اسے ایوان میں پیش کرنا ضروری ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کا کام قانون سازی ہے۔ آئین و قانون میں اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ پاکستان کا صدر آئین کے تحت پارلیمان کا حصہ ہے، صدر اس وقت آرڈیننس جاری کرتا ہے جب ایسے حالات ہوں کہ قانون سازی ممکن نہ ہو۔

پی ایم ڈی سی کا آرڈیننس سینیٹ نے مسترد کر دیا تھا۔ سینیٹر مہرتاج روغانی نے کہا کہ پی ایم ڈی سی کے سیکریٹری اور رجسٹرار بھاری تنخواہیں وصول کر رہے تھے، اس بارے میں آرڈیننس انتہائی ضروری تھا۔ پی ایم ڈی سی کے سیکریٹری اور رجسٹرار کو تنخواہ کے علاوہ 211 فیصد الائونسز کی ادائیگی کی جاتی تھی، رجسٹرار کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سے زائد تھی۔

سینیٹر کبیر شاہی نے کہا کہ 1962ء میں ایک ادارہ جو بہترین کام کر رہا تھا اور اس میں چاروں صوبوں اور ڈاکٹروں کی نمائندگی موجود تھی، نئے آرڈیننس میں اس سے صوبوں کی نمائندگی ختم کی گئی ہے، پی ایم ڈی سی کے رولز میں کوئی کمی بیشی ہے تو اس کو ایوان میں لایا جائے، اس پر بحث کریں گے، الائونسز اور تنخواہوں کو مدنظر رکھ کر اس کی کارکردگی کو بھی دیکھنی چاہئے۔