مقبوضہ کشمیر ، 103ویں روز بھی بھارتی محاصرہ ،غیر یقینی صورتحال بدستور برقرار رہی

بھارتی قبضے کے خلاف زبردست بھارت مخالف مظاہرے،بھارتی فوجیوں کا مظاہرین پرطاقت کا وحشیانہ استعمال ،متعدد افراد زخمی امریکی اراکین کانگریس کا ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں جاری پابندیوں، نظربندیوںاور مذہبی آزادی پر عائد قدغن پر اظہار تشویس

جمعہ 15 نومبر 2019 18:13

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 نومبر2019ء) مقبوضہ کشمیر میں لوگوںنے بھارتی قبضے اور بھارت کی طرف سے کشمیرکوبراہ راست اپنے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے خلاف اپنے غم و غصے کے اظہار کیلئے جمعہ کو مختلف علاقوں میں زبردست مظاہرے کیے۔ کشمیر میڈیاسروس کے مطابق سرینگر ، بڈگام ، گاندر بل ، اسلام آباد ، پلوامہ ، کولگام ، شوپیاں ،بانڈی پورہ ، بارہمولہ ، کپواڑہ اور دیگر علاقوں میں لوگ نما ز جمعہ کے فوراً بعدسڑکوں پر نکل آئے اور آزادی کے حق میں جبکہ بھارت کے خلاف فلک شگاف نعرے لگائے ۔

بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے مختلف مقامات پر مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا جس کے نتیجے میں متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ دریں اثناجمعہ کو 103ویں روز بھی جاری رہنے والے بھارتی محاصرے کی وجہ سے مقبوضہ وادی کشمیر اورجموں اورلداخ خطوںکے مسلم اکثریتی علاقوں میں خوف و دہشت اور غیر یقینی صورتحال بدستور برقرار رہی۔

(جاری ہے)

نریندر مودی کی سربراہی میں قائم بھارتی حکومت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور اسکے بعد کیے جانے والے غیر انسانی اوروحشیانہ اقدامات کے خلاف لوگوں میں شدید غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

مقبوضہ علاقے میں دفعہ 144کے تحت پابندیاں بدستور برقرار ہیں جبکہ چپے چپے پر بھارتی فورسز کے اہلکار تعینات ہیں ۔ انٹرنیٹ ، ایس ایم ایس اورپری پیڈ موبائل سروسز تاحال معطل ہیں۔ لوگ تعلیمی اداروں اور دفاتر میں نہیں جا رہے اور دکانیں زیادہ وقت بند رکھ کر کشمیرمخالف بھارتی اقدامات کے خلاف سول نافرمانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جموںوکشمیر سیرت کمیٹی کشتواڑ نے ایک بیان میں بھارتی فوجیوں کی طرف سے تنظیم کے چیئرمین مولانا عبدالقیوم کی گرفتاری کی مذمت کی ہے۔

فوجیوں نے مولانا قیوم کو ایک ساتھی نصیر احمدباغوان کے ہمراہ گزشتہ ہفتے کے روز کشواڑ قصبے سے گرفتار کیا تھا ۔تازہ برف باری اور بارش کے باعث سرینگر جموں ، سرینگر لیہہ اورمغل روڈ بند ہو گئی ہیں۔ ان شاہراہوں پر ہزاروں گاڑیاں پھنس گئی ہیں۔ادھر امریکی ارکان کانگریس نے ٹام لینٹوز انسانی حقوق کمیشن کے زیر اہتمام انسانی حقوق کے بارے میں کانگریس کی ایک سماعت کے دوران ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر میں جاری پابندیوں، نظربندیوںاور مذہبی آزادی پر عائد قدغن پر تشویش ظاہر کی ہے۔

امریکی ایوان نمائندگان کی پہلی بھارتی نژاد رکن پرامیلا جیاپال نے اس موقع پر کہاکہ انہیںبلا جواز طورپر لوگوںکو نظربندکرنے ، ذرائع مواصلات کی بندش اور کسی تیسرے فریق کو مقبوضہ علاقے کے دورے کی اجازت نہ دینے سمیت کشمیرمیں بھارتی حکومت کے اقدامات پر گہری تشویش ہے ۔ ان کے ہمراہ ڈیموکریٹک پارٹی کے دیگر اراکین شیلا جیکسن لی ، ڈیوڈ ٹرون اور ڈیوڈ سیسیلین کے علاوہ بین الاقوامی مذہبی آزادی کے بارے میں امریکی کمیشن کی کمشنر ارونیما برگوابھی موجود تھیں جنہوںنے جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کے بعد مقبوضہ علاقے میں بھارتی اقدامات پرکڑی تنقید کی ۔ گزشتہ ماہ بھی کانگریس کی سماعت کے دوران مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی گئی تھی ۔