Live Updates

سید علی گیلانی کی طرف سے عمران خان کو لکھے گئے خط پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، سردار عتیق احمد خان

وزیراعظم پاکستان بزرگ حریت رہنماء کے خط میں درج خدشات کا فوری طور پر نوٹس لیں، آزاد کشمیر کی حکومت ،اپوزیشن ،تمام سیاسی جماعتیں سید علی گیلانی کی آواز میں آواز ملائیں ،کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے ،ہندوستانی فوج کو ماضی کی طرح آئندہ بھی ناکامی ہو گی، سربراہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس

ہفتہ 16 نومبر 2019 14:35

�ظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 نومبر2019ء) آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کے قائد و سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد خان نے حریت لیڈر سید علی گیلانی کی طرف سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو لکھے گئے خط پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔انہوں نے وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا کہ وہ بزرگ حریت رہنماء سید علی گیلانی کے خط میں درج خدشات کا فوری طور پر نوٹس لیں۔

انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی نے وزیراعظم پاکستان کو بڑا فکر انگیز خط لکھا ہے۔سید علی گیلانی کا جو خط ہے وہ دعوت فکر ہے اور لمحہ فکریہ ہے،حکومت پاکستان کے کیلئے بھی اور اس ملک کے سیاستدانوں کیلئے بھی اور ہم آزاد کشمیراور پاکستان کے لوگوں کیلئے بھی ہے،حکومت آزاد کشمیر کیلئے اور اپوزیشن کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔

(جاری ہے)

سردار عتیق احمد خان نے سید علی گیلانی کو یقین دلایا کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس کی قیادت ،کارکنان اور آزاد کشمیر کے عوام کشمیری بھائیوں کی تشویش سے بخوبی آگاہ ہیں اور اس سلسلے میں بھر پور جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سید علی گیلانی نے خط 100 سال کی عمر میں لکھا ہے اس میں انہوں نے حکومت پاکستان کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کی طرف مبذول کروائی ہے تو اس خط میں بڑا جذباتی پہلو بھی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے یہ میرا آخری خط ہو سکتا ہے،اس کے بعد کوئی رابطہ ہو سکے یا نہ ہو سکے۔ہم سید علی گیلانی کی زندگی کیلئے دعا گو ہیں اور اس خط پر حکومت پاکستان کو اور بالخصوص وزیراعظم پاکستان عمران خان کو توجہ دینی چاہئے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز مظفرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ عمران خان نے 10،15 سال کے پاکستان کی حکومتوں کی سیاسی گناہوں پر پردہ ڈال کر تاریخ میں جراتمندانہ اقدام کیا تھا انہوں نے جنرل اسمبلی میں جا کر یونائیٹڈ نیشن میں کشمیریوں کا سر فخر سے بلند کیا،پاکستان کے جذبات کی عکاسی کی اور تحریک آزادی کشمیر کو سرخرو کیا،ساری دنیا کی سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی نے اس کو پک اپ کیا،اگر چہ کسی حکومت پر اس کا اثر ہوا یا نہیں ہوا لیکن ساری دنیا میں بیداری پیدا کی اور سات دنوں میں 17 میٹنگز کیں انہوں نے یونائیٹڈ نیشن میں سابقہ حکمرانوں کے سست رویے کا ازالہ کیا اور نواز شریف کے دور کی جنہوں نے 5 سال تک وزیر خارجہ نہیں رکھا اور وزیر خارجہ کی حیثیت کم از کم کھیل کے میدان میں گول کیپر کی سی ہے،گول کیپر نہ ہو تو دوسری ٹیم سیدھے اپنی مرضی کے گول کرتی رہے گی۔

سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ ہندوستان نے کشمیر کے محاذ پر پاکستان کے وزیر خارجہ کی عدم موجودگی میں پوری دنیا میں مسلم امہ میں بھی،یورپ میں بھی،افریقہ میں بھی وسط،ایشیا میں بھی،نارتھ اور سائوتھ امریکہ مجیں بھ اپنی مرضی کے گول کیے اور ساری فضا ہمارے خلاف کی لیکن اس کمی کو بھی موجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بڑی حد تک پورا کرنے کی کوشش کی۔

ہندوستان کے وزیر خارجہ نے 50،60 ملکوں کے تیس اکتوبر سے پہلے پہلے دورے کیے۔ہماری خواہش تھی کہ اور امید تھی کہ عمران خان کی موجودگی میں فالو اپ ہو گا اور پاکستان کے وزراء،حریت کانفرنس اور یہ لوگ تیزی کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں چلیں گے،پھیریں گے اور کشمیر کی اس پالیسی کو جس کو عمران خان نے پرموٹ کیا بیان کریں گے لیکن یہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان کی جو تقریر تھی نہ اس سے پہلے کچھ ہوا نہ اس کے بعد کچھ ہوا۔

اُن کو جانے سے پہلے بھی حریت کانفرنس کے ساتھ مل کر جانا چاہئے تھا اور واپس آنے کے بعد بھی حریت کانفرنس کے ساتھ ملنا چاہئے تھا،آزاد کشمیر کی قیادت کے ساتھ ملنا چاہئے تھا اور اس کے بعد انہیں فالو اپ میں پاکستان کے وزراء کو،وزیر خارجہ کو اے پی ایچ سی کے لوگوں کو باہر بھیجنا چاہئیے تھا اور وہ نہیں ہو سکا۔ابھی بھی کچھ نہیں،ابھی بھی جو چوتھا مہینہ شروع ہو گیا مقبوضہ کشمیر کے لاک ڈائون میں80 لاکھ کی آبادی محصور ہے۔

سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ ہم سب سیاسی کارکنوں کیلئے لیکن خاس طور پر حکومت پاکستان کو مخاطب کیا ہے تو میں آزاد کشمیر کی حکومت اور اپوزیشن اور تمام سیاسی جماعتوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام کے تمام لوگ سید علی گیلانی کی آواز میں آواز ملائیں اور ان کے ساتھ ہم آواز ہوں اور حکومت پاکستان فوری طور پر بلاتاخیر سید علی گیلانی کے خط کو ایک پالیسی ساز ڈاکومنٹ کے طور پر لے۔

سید علی گیلانی اس وقت تحریک آزادی کشمیر کیلئے ایک بلند پیہ علمبردار ہیں اور ایک نازک ترین جو نظریاتی رشتہ ہے اس پر پہرہ داری کر کے تحریک کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔میر واعظ عمر فاروق،یاسین ملک،شبیر احمد شاہ،عبدالغنی بٹ،غلام عباس انصاری،آسیہ اندرابی،نعیم احمد خان ہیں پوری ایک لائن ہے اب جو نئی صورتحال ہے درمیانی جو صورتحال تھی اس سے پہلے کی کشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے سے پہلے کی اس میں فاروق عبداللہ،محبوبہ مفتی،عمر عبداللہ بھی شامل ہو گئے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ جو تیس اکتوبر کے بعد کی صورتحال ہے جو اس کو یونٹ میں شامل کرنے کے بعد اب اس کے بعد جو ڈوگرے ہیں جو ہندو ہیں جن کا تعلق مہاراجہ ہری سنگھ اور گلاب سنگھ کے ساتھ ہے جو کسی نہ کسی طرح سے اپنے اپ کو کشمیر کا اصل وارث کہتے ہیں ان میں سے ایک فرد واحد بھی ہندوستان کے اس فیصلے پر خوش نہیں ہے اور رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں وہ تحریک آزادی میں شامل نہ ہو وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نہ مانے لیکن جموں وکشمیر کی جو ریاستی حیثیت ہے جو ریاستی تشخص ہے وہ بنیادی طور پر مسلم کانفرنس نے اور پھر نیشنل کانفرنس نے قائم رکھا اور پھر موجودہ تحریک کو آل پارٹیز کانفرنس نے اور ان لوگوں نے اس کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں یہاں ایک دو لاکھ اور جموں میں چار پانچ لاکھ لوگ شہید ہوئے اور یہ جو موجودہ صورتحال ہے اور جو یہ خط سید علی گیلانی کا ہے اور حکومت پاکستان کو چاہیے اس پر توجہ دیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان خاص طور پر بلاتاخیر حریت کانفرنس سے آزاد کشمیر کی قیادت سے بار بار مشاورت کرے۔جنرل پرویز مشرف یہ مشاورت بار بار کرتے تھے۔کشمیر کے معاملے پر انہوں نے اپنے ایام میں ایک ایک سال میں چار چار چھ چھ اور آٹھ آٹھ ملاقاتیں آزاد کشمیر کی حکومت،اپوزیشن سے،سابق صدور سے،وزیراعظم وزراء اعظم سے اور حریت کانفرنس کے نمائندوں سے کیں تو وہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ سمیت لوگوں سے ملتے تھے اور اکھٹے ہوتے تھے ایک فوجی حکمران اگر یہ کر سکتا ہے تو عمران خان یہ بات کیوں نہیں کر سکتے،اُن یہ کرنا چاہیے۔

سردار عتیق احمد خان نے کہا کہ میں خاص طور پر حریت رہنماء سید علی گیلانی کو اس بات کی تائید اور حمایت اور یقین دلانا چاہتا ہوں کہ آل جموں وکشمیر مسلم کانفرنس نے جو سفر 1932 میں،جو سفر 19 جولائی 1947 کو غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کے گھر سے ،جو سفر 23 اگست 1947 کو مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اور یکم نومبر کو کرنل مرزا حسن کی قیادت میں شروع کیا تھا اس سفر کو ہم جاری رکھے ہوئے ہیں،کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے اور ہمیں یہ یقین ہے یہ محاصرہ جب ٹوٹتا ہے تحریک آزادی ایک نئی قوت سے ابھرے گی اور ہندوستانی فوج کو ماضی کی طرح آئندہ بھی ناکامی ہو گی۔

میں سید علی گیلانی کی صحت اور درازی عمر کیلئے دعا گو ہوں اور حکومت پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ سید علی گیلانی کے خط کو سرکاری میڈیا،پی ٹی وی پر دوسرے میڈیا پر نملایاں جگہ دی جائے اور پر کابینہ کا حکومت پاکستان کا ہنگامی اجلاس بلا کر کشمیر کمیٹی کو ایکٹیویٹ کیا جائے اور کشمیری قیادت کے ساتھ رابطہ کر کے اسی خط کی بنیاد پر نئی پالیسی کشمیر قومی پالیسی تشکیل دی جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر کے مظالم کو دنیا پر ہندوستان کے اصل چہرے کو مودی کے نازی ازم کو جس جو کو وزیراعظم عمران خان نے بہت کامیابی سے اسے موجودہ دور کا ہٹلر ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور واقعی مودی کی شکل میں ہندوستان میں ہٹلر کی حکومت ہے۔

مودی کے اور آر ایس ایس کے عزائم سے سارا ہندوستان اس وقت خوف زدہ ہے کشمیر کے اس فیصلے کے بعد لیکن ہم کشمیر کے لوگوں کو یہ بات بتانے میں وقت محسوس کرتے ہیں کہ کرتار پور راہداری میں ہندوستان کے ساتھ دوستی ہے،چکوٹھی کے بارڈر پر ہندوستان کے ساتھ دشمنی ہے یہ بات ذرا سمجھانی عام آدمی کو مشکل ہے اس لیے ہم خوش ہیں اس فیصلے سے کہ کرتار پور والے فیصلے سے پاکستان کا ایک سافٹ امیج پایا گیا ہے اور اسی دن ہندو عدالت نے سپریم کورٹ میں فیصلہ کر کے ہندوستان کو بے نقاب کیا،پوری دنیا میں اور اس بات پر بھی خوش ہیں کہ خالصتان کے بے شمار علاقوں جو اس پنجاب میں سکھوں کے علاقوں میں پاکستان کا پرچم لہرا گیا ہے۔

عمران خان زندہ باد کے بینرز لگے ہوئے ہیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے ہم ہندوستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہیے لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس موقعے اس فائدہ اٹھایا جائے کہ اگر کرتا پور راہداری کھل سکتا ہے تو کارگل سے لے کر سوچیت گڑھ تک کشمیر کے راستے کیوں نہیں کھل سکتے یہ 70 سال سے کشمیری ایک دوسرے کے ساتھ کیوں نہیں مل سکتے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات