اسٹیل ملز روزانہ ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ کا نقصان کر رہی ہے،میاں زاہد حسین

اس سفید ہاتھی کو روسی یا چینی کمپنیوںکے سپرد کر کے جان چھڑائی جائے،صدر کراچی انڈسٹریل الائنس

پیر 18 نومبر 2019 22:48

اسٹیل ملز روزانہ ساڑھے چھ کروڑ سے زیادہ کا نقصان کر رہی ہے،میاں زاہد ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 نومبر2019ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ روزانہ ساڑھے چھ کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان کرنے والی پاکستان ا سٹیل ملز کو فروخت کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔ اس سفید ہاتھی کو روسی کمپنیوں کے سپرد کر دیا جائے یا سی پیک میں شامل کر دیا جائے۔

میاں زاہد حسین نے بز نس کمیونٹی سے گفتگو میں کہا کہ ا سٹیل مل ماہانہ 2 ارب روپے کا نقصان کر رہی ہے جبکہ موجودہ دور حکومت میں اس کے نقصانات 460 ارب روپے سے بڑھ کر 510 ارب روپے ہو چکے ہیں جن میں اضافہ جاری ہے۔اس محکمے کے چیئرمین ابھی بھی اسے فعال بنانے اور اسکی پیداوار کو11 لاکھ ٹن سے شروع کر کے 33لاکھ ٹن تک پہنچانے کے لئے پر عزم ہیں جو مشکل لگتا ہے۔

(جاری ہے)

جس ادارے میں سی ای او کی آسامی جنوری 2013 سے خالی پڑی ہوئی ہے اسے بحال کرنے کی کوشش وقت کا ضیاع ہے جبکہ جو لوگ اسے کامیابی سے چلا چکے ہیں انھیں کوئی اہمیت دینے یا انکی خدمات حاصل کرنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہے۔اسٹیل ملز کی بندش سے معیشت کو 11 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے مگر ایک با اثر مافیا اسے بند رکھنے میں دلچسپی رکھتی ہے جسکی وجہ سے پیداواری عمل جون 2015 سے بند پڑا ہے جس سے یہ منافع بخش ادارہ معیشت پر بڑا بوجھ بن گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس ادارے کے اکائونٹس کا گزشتہ کئی سالوںسے آڈٹ نہیں کروایا گیا ہے جو حیران کن ہے۔آڈٹ کی صورت میں چشم کشا انکشافات ہو سکتے ہیں مگر یہ عمل بعض با اثر حلقوں کے مفادات کے خلاف ہو گا۔ اس ادارے کو بھی دیگر بہت سے اداروں کی طرح نا اہلی، بے ایمانی،بدعنوانی اور فالتو بھرتی جیسے امراض لاحق ہیں جو اب ناقابل علاج ہو چکے ہیں ۔میاں زاہد حسین نے کہا کہ یہ ادارہ 2000 سے 2008 تک منافع بخش رہامگر اسکے بعد اسے بڑی بے رحمی سے لوٹا گیا اور کسی حکومت نے اسکی بحالی میں خاطر خواہ دلچسپی نہیں لی ہے۔اسٹیل ملز اسٹیک ہولڈرز گروپ کے مطابق اگر اس ادارے کا ٹیرف مناسب کر دیا جائے تو اسے آسانی سے بحال کیا جا سکتا ہے اور حکومت کو سالانہ 100 ارب روپے کا ریونیو بھی ملے گا۔