۹بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ 25منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا

/ جمعیت العلماء اسلام کے رکن نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں گیس پریشر کی کمی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کرائی ایک جانب وفاقی حکومت ہمیں نوید سنارہی ہے کہ ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ ہوا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے جس سے شہری اذیت میںمبتلا ہے ، سید فضل آغا

پیر 18 نومبر 2019 22:58

tکوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 نومبر2019ء) بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ایک گھنٹہ 25منٹ کی تاخیر سے ڈپٹی سپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل کی زیر صدارت شروع ہوا اجلاس میں جمعیت العلماء اسلام کے رکن سید فضل آغا نے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر اضلاع میں گیس پریشر کی کمی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ایک جانب وفاقی حکومت ہمیں نوید سنارہی ہے کہ ملک میں توانائی بحران کا خاتمہ ہوا ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان میں موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور گیس پریشر میں کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ہے جس سے شہری اذیت میںمبتلا ہیں ۔

انہوںنے کہا کہ بلوچستان حکومت اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لے رہی ہم نے بارہا حکومت کو دعوت دی کہ بلوچستان کی ترقی اورخوشحالی میں اپوزیشن حکومت کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہتی ہے لیکن حکومت وفاق سے صوبے سے متعلق ہونے والے اقدامات میں مسلسل ہمیں نظر انداز کررہی ہے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی نے اسمبلی کے باہر نصیر آباد اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے زمینداروں اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے جاری احتجاج کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ نصیر آباد میں گزشتہ ستر سالوںسے آباد کاشتکاروں اور زمینداروں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں وہ اس وقت بلوچستان اسمبلی کے باہر انصاف کے لئے آئے ہیں اور احتجاج کررہے ہیں ان سے بات چیت کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جائے ۔

(جاری ہے)

جس پر ڈپٹی سپیکر نے صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی ، مشیر لائیوسٹاک مٹھاخان کاکڑ، جمعیت علماء اسلام کے اصغرترین اور ملک نصیر شاہوانی پر مشتمل کمیٹی کو مظاہرین کے پاس جاکر بات کرنے کی ہدایت کی ۔اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سوالات کے جواب موصول نہ ہونے پشتونخوا میپ کے رکن نصراللہ زیرئے نے کہا کہ یہ سوال چھ سے سات مرتبہ پہلے بھی ٹیبل ہوچکا ہے جس کا جواب موصول نہیں ہورہا بیوروکریسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کررہی ۔

صوبائی وزیر سردار صالح بھوتانی نے کہا کہ محکمہ بلدیات سے متعلق سوال کا غیر تسلی بخش جواب آنے پر میں نے چار چیف آفیسرز کو عہدوں سے ہٹادیا اور پندرہ آفیسرز کو نوٹسز بھی جاری کئے گئے ہیں 8ڈویلپمنٹ آفیسرز کو معطل کردیاگیا ہے انہوںنے یقین دہانی کرائی کہ تسلی بخش جواب موصول ہوتے ہی ایوان میں جمع کرائوں گا۔جمعیت علماء اسلام کے سید فضل آغا نے وزیر بلدیات کے اقدام کو قابل ستائش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ باقی وزراء بھی وزیر بلدیات کی تقلید کریں گے ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے اپنی توجہ دلائونوٹس سے متعلق سوالات دریافت کرتے ہوئے استفسار کیا کہ کیایہ درست ہے کہ پی بی31کے بی ایچ یوز کی خالی آسامیوں پر تعیناتی عمل میں لائی گئی ہیں اگر تعیناتیاں کرلی گئی ہیں تو بتایا جائے کہ اشتہارکن اخبارات میں مشتہر کئے گئے اور کن لوگوں کو تعینات کیا گیا ہے ان کے نام اور ولدیت سمیت دیگر کوائف سے آگاہ کیا جائے جس پر وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے کہا کہ محکمے نے تعیناتیاں نہیں کیں اگر رکن کے پاس اس بارے میں معلومات اور شواہد ہیں تو ہمیں آگاہ کریں ہم تعیناتیوں کو منسوخ کردیں گے ۔

اجلاس میں ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے قادرعلی نائل نے گیس پریشر سے متعلق تحریک التواء پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردی شروع ہوتے ہی کوئٹہ شہر و گردونواح بالخصوص حلقہ پی بی 26میں شامل ہزارہ ٹائون ، پشتون باغ ، بروری روڈ ، کرانی اور اسی طرح حلقہ پی بی27میں شامل علمدار روڈ ، پشتون آباد ، ناصر آباد ، مومن آباد ، سیٹلائٹ ٹائون ، لیاقت بازار اور کواری روڈ وغیرہ کے علاقوں میں گیس پریشر نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید سردی میں مشکلات کا سامنا کرناپڑرہا ہے اس لئے ایوان کی کارروائی روک کراس اہم اور عوامی نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایا جائے تحریک التواء کو اراکین کی مشاورت سے بحث کے لئے منظور کرتے ہوئے ڈپٹی سپیکر نے اس پر اگلے اجلاس میں عام بحث کی رولنگ دی ۔

اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کی رکن و پارلیمانی سیکرٹری ماہ جبین شیران نے وزیراعلیٰ بلوچستان و صوبائی وزراء کے ( مشاہرات، مواجبات و استحقاقات) کا ترمیمی مسودہ قانون مصدرہ2019ء (مسودہ قانون نمبر20) ایوان میں پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیاگیا ۔ وزیر صحت میر نصیب اللہ مری نے بلوچستان ہیلتھ کیئر کمیشن کا مسودہ قانون کو مجلس کی سفارشات کے موجب منظور کرنے کی تحریک پیش کی جس کی ایوان نے منظوری نے دی ۔

ایوان نے ماہ جبین شیران کی جانب سے وزیر قانون وپارلیمانی امور کی غیرموجودگی میں ضابطہ دیوانی ( بلوچستان کا ترمیمی ) مسودہ قانون متعلقہ مجلس کی سفارشات کے بموجب منظور کرنے کی تحریک پیش کی جس کی منظوری دیتے ہوئے ایوان نے ضابطہ دیوانی ( بلوچستان کاترمیمی ) مسودہ قانون کمیٹی کی سفارشات کے بموجب منظور کرلیا ۔اجلاس میں پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند ، نصراللہ زیرئے ،ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی ، شاہینہ کاکڑ ، بانو خلیل ، اور زینت شاہوانی کی مشترکہ قرار داد ایوان میں پیش کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ 1989ء میں اقوام متحدہ کی تیسویں سالگر کے موقع پر بچے قو م کا مستقبل ہونے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے بچوں کے حقوق سے متعلق کنونشن کے تناظر میں بیان کردہ بچوں کے حقوق کے حوالے سے کئے گئے عہد اور اس پر عملدرآمد جس کی توثیق پاکستان نے 1990ء میں کی یہ ایوان اس ضمن میں اپنے عزم کااظہار کرتا ہے ۔

چونکہ آئین کا آرٹیکل35ء بطور ریاستی پالیسی بچوں کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس تلخ حقیقت کی نشاندہی کی جاتی ہے کہ پاکستان میں لاکھوں بچے غذائیت ، اچھی معیاری تعلیم کا فقدان ، چائلڈ لیبر ، بدتمیزی ، تشدد ، جنسی زیادتی ، معاشرتی تفاوت اور بچوں کے حوالے سے موجود قوانین کے اطلاق کے ضمن میں ریاستی اداروں کی عدم توجہی کا سامنا ہے اور پاکستان کی جانب سی17ایس ڈی جیز ٹارگٹس کا 2030تک حصول کے ضمن میں پاکستان کے عزم کا اظہار جس میں بچوں کی فلاح و بہبود اور ان عناصر کا خاتمہ شامل ہے جو ان کی ترقی ونشوونما کی راہ میں رکاوٹ ہیں ایس ڈی جیز پر ابتدائی ٹاسک فورس کے قیام کے حوالے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات قابل تعریف ہیںجن کا تعلق بچوں کے حقوق کی خصوصی کمیٹی سے ہے اس لئے یہ ایوان صوبائی اور وفاقی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ تمام بچوں بشمول معذور بچوں کو ضروری بنیادی ضروریات جن میں صحت مند غذا ، صحت کی دیکھ بھال ، حفاظتی ٹیکہ ،ابتدائی بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم ، بلامعاوضہ لازمی بنیادی تعلیم ، ہر قسم کے تشدد سے تحفظ ، جنسی زیادتی سے بچائو اور چائلڈ لیبر کی صورت میں بچوں کے معاشی استحصال کو رکونے اور بچوں سے متعلق ان قوانین پر جو وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں کی جانب سے پہلے سے تشکیل دیئے جاچکے ہیں پر فوری عملدرآمد اورمزید ایسے قوانین وضع کئے جائیں جن کا تعلق بچوں کے معاملات سے ہو جو پہلے وضع کردہ قوانین میں موجود نہ ہوں ۔

قرار داد کی موزونیت پر بات کرتے ہوئے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ پاکستان نے بچوں کے قوانین سے متعلق جنیوا کنونشن پر دستخط کئے ہیں ملک میں بچوں سے متعلق کئی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوپاتا گزشتہ دور حکومت میں چائلڈ لیبر اور بچو ں کے حقوق سے متعلق 17کے قریب قوانین بنائے گئے قوانین بنائے تو جاتے ہیںلیکن ان پر عملدرآمد سے متعلق ضابطہ کار تک نہیں رول اینڈ بزنس نہیں بن سکے انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں72فیصد بچے سکول سے باہر ہیں حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ غذائی قلت کے خاتمے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے ۔

انہوںنے کہا کہ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اب تک پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہوسکا ۔ قرار داد پر بات کرتے ہوئے صوبائی سماجی بہبود اسد بلوچ نے کہا کہ لاکھوں کی تعداد میں بچے ہوٹلوں ، گیراجز اور دیگرجگہوں پر مشقت کاکام کرتے ہیں دہشت گردی کے واقعات میں شہید ہونے والے افراد کے اہلخانہ اور بچوں کی کفالت کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے افراتفری اور انارکی کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ان بچوں کو اٹھا کر برین واش کرکے انہیں استعمال کیا جاتا ہے حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے حقوق کے لئے بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بناکر ان کی تعلیم اور نشوونما کے لئے اقدامات اٹھائے انہوںنے کہا کہ کوئٹہ میں ان بچوں کے لئے قائم سینٹرمیں انہیں تعلیم ، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور ان بچوں کی مناسب دیکھ بھال کی جارہی ہے انہوںنے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس ضمن میں سوشل ویلفیئر کی تجاویز کو مد نظر رکھتے ہوئے موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

قرار داد پر بی اے پی کی بشریٰ رند نے بھی اظہار خیال کیا جس کے بعد قرار داد متفقہ طو رپر منظور کرلی گئی ۔اجلاس میں صوبائی وزیرخوراک سردار عبدالرحمان کھیتران نے اسمبلی ہال میں نصب سائونڈ سسٹم اور کرسیوں کی زبوں حالی کی جانب ایوان کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ مسئلہ چلا آرہا ہے اراکین اسمبلی متعدد مرتبہ اپنے تحفظات کااظہار کرچکے ہیں لیکن یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا انہوںنے کہا کہ سائونڈ سسٹم اور کرسیوں کی حالت انتہائی خستہ ہے اور کارپٹ کے نیچے مٹی کی تہ بچھی ہوئی ہے انہوںنے کہا کہ جومٹی جمع ہوئی ہے اسے جمع کیا جائے تو ایک مزدا ٹرک مٹی سے بھر جائے گا ۔

جس پر ڈپٹی سپیکر نے کہا کہ اس سلسلے میں اسمبلی سیکرٹریٹ کام کررہا ہے جلد ہی مسئلہ حل کرلیا جائے گا۔اجلاس میں بی اے پی کی رکن و پارلیمانی سیکرٹری بشریٰ رند نے تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کو بااختیار بنانے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ترقی و ترویج کے لئے 5نومبر2018ء کو ایک قرار داد کے ذریعے بلوچستان اسمبلی کی خواتین اراکین اسمبلی کے درمیان ان کی پارٹی وابستگی سے قطع نظر مشترکہ تعاون اور باہمی امداد کی روایت کو پروان چڑھانے کی خاطر بلوچستان اسمبلی نے خواتین اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک ویمن پارلیمانی کاکس کے قیام کی منظوری دی تھی لیکن ویمن پارلیمنٹری کاکس کے روزہ مرہ امور کی انجام دہی کے لئے اب تک باقاعدہ رولز آف پروسیجر مرتب نہیں کئے گئے ویمن پارلیمنٹری کارکس کو اپنے روزہ مرہ امور کی انجام دہی اور خواتین کو بااختیار بنانے اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ترقی و ترویج کے لئے رولز آف پروسیجر مرتب کرنے کی منظوری دی جائے تاکہ ویمن کاکس اپنا کام احسن طریقے سے سرانجام دے سکے ۔

ایوان نے متفقہ طو رپرتحریک کی منظوری دے دی ۔اجلاس میں صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور بلیدی نے صوبائی حکومت کے زیر اہتمام صوبے کی تاریخ میں پہلی بار کامیاب لائیوسٹاک ایکسپوکے انعقاد پر اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے عوام کے ستر فیصد کا ذریعہ معاش زراعت اور لائیوسٹاک سے وابستہ ہے لیکن ماضی میں ان شعبوں کی جانب توجہ نہیں دی گئی تاہم وزیراعلیٰ بلوچستان کی کوششوں سے کامیاب ایکسپو کے انعقاد پر صوبائی مشیر لائیوسٹاک اور وزیراعلیٰ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں انہوںنے کہا کہ ماضی میں اس شعبے کی جانب توجہ نہ دیئے جانے کی وجہ سے آج بھی ہمارے ہاں لائیوسٹاک میں روایتی انداز میں کام ہورہا ہے موجودہ حکومت اس جانب توجہ دے کر شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرے گی انہوںنے کہا کہ گزشتہ روز شروع ہونے والے ایکسپو میںصوبائی حکومت کی دعوت پر80سے زائد کمپنیاں شریک ہوئیں جبکہ آسٹریلیا، ایران ، تھائی لینڈ اور چین سے بھی وفود شرکت کررہے ہیں انہوںنے کہا کہ ایکسپو کے انعقاد میں اپوزیشن نے بھی تعاون کیا جس پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں ایکسپو کے انعقاد کے لئے ہم نے سردار اختر مینگل اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت تمام سیاسی جماعتوں اور مختلف طلبہ تنظیموں سے بھی رابطہ کیا جن کے تعاون سے ایکسپو کامیاب ہوا آئندہ صوبائی حکومت مائننگ ، سمیت دیگر شعبوں پر بھی توجہ دی جائے گی انہوںنے کہا کہ ایکسپو کے انعقاد سے بلوچستان میں امن وامان کے حوالے سے بے بنیاد تاثر بھی زائل ہوگیا جبکہ گزشتہ دنوں ایک سکینڈل کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی کی ساکھ مجروع ہوئی تھی اس ایکسپو کے انعقاد سے اس کے ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملی ۔

صوبائی مشیر لائیوسٹاک مٹھاخان کاکڑ نے ایکسپو کے انعقاد کو بلوچستان کی ترقی اورخوشحالی کے لئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی خصوصی دلچسپی اور کوششوں سے ایکسپو کامیاب ہوا ایکسپو کے انعقاد سے لائیوسٹاک کا شعبہ ترقی کرے گا مالدار خوشحال اور صوبے کی معیشت مستحکم ہوگی مالداروں کوجدید مالداری سے آگاہی سمیت انہیں اپنے جانوروں کی بہترقیمت اور کھالوں کو محفوظ کرنے سے متعلق بھی آگاہی حاصل ہوگی انہوںنے ایکسپو میں چین ایران سمیت دیگر ممالک کے وفود کی شرکت پر اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپو کے انعقاد پر اپوزیشن کے تعاون کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں انہوںنے کہا کہ ایکسپو کی کامیابی میں محکمہ لائیوسٹاک کے افسران و عملے کا کردار انتہائی اہم رہا ۔

اجلاس میں پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے کی گزشتہ اجلاس میں باضابطہ شدہ تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر ملک سکندر خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ اغواء برائے تاوان کے واقعے میں 14اگست کو نوجوان غوث اللہ کو اغواء کیا گیا اور ان کے لواحقین سے پچاس لاکھ روپے تاوان لینے کے باوجود 14نومبر کو انہیں شہید کرکے لاش میزئی اڈے کے قریب پھینک دی گئی ہم نے متاثرہ خاندان سے جا کر ملاقات کی وہ اس وقت شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں گھر کے افراد گھر سے نکلتے ہوئے اپنی سیکورٹی کے لئے انتہائی پریشان ہیں یہ ایک بڑا المیہ ہے اغواء برائے تاوان کے واقعات حکومت اور دیگر اداروں کی موجودگی میں سمجھ سے بالاتر ہیں ہم سب آئین کے پابند ہیں کہ اپنے فرائض سرانجام دیں مگر اس وقت عوام عدم تحفظ کا شکار اور ملزمان سرعام گھوم پھر رہے ہیں جویقیناً ایک بہت بڑا مسئلہ ہے انہوںنے کہا کہ اغواء برائے تاوان کوئی معمولی جرم نہیں ہوتا اور نہ ہی فرد واحد اس میں ملوث ہوتا ہے بلکہ پورا گروہ شامل ہوتا ہے اغواء برائے تاوان کے واقعات سے عوام میں بے چینی اور خوف و ہراس پایا جاتا ہے یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفظ فراہم کرے اور واقعے میں ملوث عناصر کو گرفتار کرکے کڑی سزا دے ۔

نصراللہ زیرئے نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ پھر صوبے میں دہشت گردی اور اغواء برائے تاوان کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مسلح افراد سرعام سڑکوں پر گھوم ررہے ہیں مسلح افراد کو کوئی روکنے والا نہیں سید غوث اللہ کو 14اگست کو اغواء کیا گیا تھا اور4نومبر تک مسلسل اس کے والد کو تاوان کی ادائیگی کے لئے فون کالز کئے جاتے رہے اور پچاس لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد اسے قتل کرکے لاش پھینکی گئی انہوںنے کہا کہ سید غوث اللہ کے قتل کے بعد کسی بھی حکومتی رکن نے اس کے گھر جا کر فاتحہ خوانی تک نہیں کی جبکہ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت میں مقتولین کے ورثاء کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ بلا کر تعزیت کی جاتی ہے جو افسوسناک ہے انہوں نے کہا کہ 2013ء کے بعد حکومت نے صوبے میں امن وامان کی صورتحال کو بہتر کیا ریکارڈ اٹھا کر دیکھا جائے اس دوران صوبے میں ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے کتنے واقعات رونما ہوئے انہوںنے مطالبہ کیا کہ سید غوث اللہ کے قتل سمیت بدامنی کے دیگر واقعات کی تحقیقات کے لئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے جے یوآئی کے اصغر ترین نے بھی سیدغوث اللہ کے اغواء اور قتل کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہری کو تحفظ فراہم کرے انہوںنے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل دور میں فون کال ٹریس کرنا حکومت کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہر چیز پر تو مصالحت ہوسکتی ہے لیکن ایسے واقعات پر ہم اپنی آنکھیں کسی بھی صورت بند نہیں کرسکتے انہوںنے کہا کہ تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ملزمان کو پکڑ کر نشان عبرت بنادیا جائے بی این پی کے ملک نصیر شاہوانی نے کہا کہ جب بھی امن وامان پر بات ہوتی ہے تو ایوان میں ہو کاعالم چھا جاتا ہے کسی بلوچ کے ساتھ ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے تو اس پر ہم ، پشتون کے ساتھ ہو تو پشتون قوم پرست اور ہزارہ قبیلے کے ساتھ پیش آجائے تو ہزارہ قوم پرست اس پر بولتے ہیں حالانکہ دہشت گردی میں جو بھی نشانہ بنے وہ انتہائی افسوسناک ہے اس کی مذمت کرنی چاہئے ہم سب کو مل کر اس طرح کے واقعات کی مذمت کرنی چاہئے ۔

انہوںنے کہا کہ اپوزیشن سید غوث اللہ سمیت دیگر واقعات پر سیاست نہیںکرنا چاہتی بدامنی کے تدارک کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں انہوںنے مطالبہ کیا کہ سید غوث اللہ کے قاتلوں کو فوراً گرفتار کیا جائے ۔ بی این پی کے احمد نواز بلوچ نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا ۔ صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء لانگو نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ ایوان میں اپوزیشن کے دوستوں نے واقعے کا ایک رخ بیان کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں اقدامات نہیں اٹھارہی حالانکہ ایسا نہیں تاوان کی ادائیگی کے لئے ہمسایہ ملک ایران سے فون کالز آتی رہیں جنہیں ٹریس کرنے کے لئے ہم نے ایران حکومت سے بات کی ہے انہوںنے کہا کہ سید غوث اللہ ہمارا بچہ تھا اس کے قاتلوں کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا انہوںنے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں فاتحہ خوانی کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ بے رسم و رسواج نہیں ہم صوبے کی روایات اور اقدار سے آگاہ ہیں اس وقت وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں وواقعے سے متعلق تشکیل دی جانے والی کمیٹی کا اجلاس ہورہا تھا جس میں اب تک ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لیا جارہا تھا اور مقتول کے ورثاء بھی اس وقت وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں موجود تھے اس موقع پر وہاں موجود مولوی صاحب نے دعا کرائی اسے غلط رنگ نہ دیا جائے ۔

انہوںنے کہا کہ سید غوث اللہ کے قتل کے واقعے کو ہم نے ٹیسٹ کیس کے طو رپر لیا ہے اور ہم جلد ملزمان کو گرفتار کرکے کیفر کردار تک پہنچائیں گے میں اس وقت یہاں موجود نہیں تھا لیکن حکومت کو مقتول کے جا کر تعزیت کرنی چاہئے تھی بعدازاں اسمبلی کا اجلاس 21نومبرکی سہ پہر تین بجے تک کے لئے ملتوی کردیا گیا ۔