Live Updates

جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں، جج صاحب کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھے ،سپریم کورٹ

کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے انکے عہدے کے فائدے نہیں لے رہے افتخار چوہدری کیس کے مطابق تو جج کے اہلخانہ کو بھی محتاط رہنا ہو گا ، سپریم جوڈیشل کونسل ربر سٹمپ نہیں ،ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے ججز کو علم بھی نہیں ہوتا، جسٹس عمر عطاء بندیال

منگل 19 نومبر 2019 15:27

جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں، جج صاحب کی اہلیہ ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 19 نومبر2019ء) سپریم کورٹ کے جج جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں، جج صاحب کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھے ،کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے انکے عہدے کے فائدے نہیں لے رہی افتخار چوہدری کیس کے مطابق تو جج کے اہلخانہ کو بھی محتاط رہنا ہو گا ، سپریم جوڈیشل کونسل ربر سٹمپ نہیں ،ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے ججز کو علم بھی نہیں ہوتاجبکہ وکیل بابر ستار نے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ آرٹیکل 209 کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے، جسٹس فائز عیسیٰ چاہتے ہیں ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں،اگر ٹیکس اتھارٹی مطمئن نہیں تھی تو 25 ہزار جرمانہ کر سکتی تھی ،جج کا احتساب اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر نہیں ہو سکتا ،صدر مملکت کا کسی جج کیخلاف ریفرنس بھیجا برا سریس ایشو ہے۔

(جاری ہے)

منگل کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کاروائی کیخلاف درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قانونی ٹیم کے ممبر ایڈووکیٹ بابر ستار نے انکم ٹیکس سے متعلق دلائل دیئے ۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اہلیہ اور بچوں کو کوئی گفٹ نہیں دیا،جو دلائل آپ دے رہے ہیں وہ گفٹ دینے سے متعلق ہیں۔

انہوںنے کہاکہ جب گفٹ دیا ہی نہیں تو اس نقطے پر دلائل کا ہم کیا کرینگے۔بابر ستار نے کہاکہ ریفرنس میں نہیں بتایا گیا کہ جسٹس فائز عیسیٰ نے اثاثے کیوں ظاہر نہیں کیی جسٹس فائز عیسیٰ بطور وکیل بھی ٹیکس ادا کرتے تھے۔ انہوںنے کہاکہ یہ الزام بھی نہیں کہ جسٹس فائز عیسیٰ لندن فلیٹس خریدنے کے قابل نہیں تھے، لندن فلیٹس چھپانا مقصد ہوتا تو آف شور کمپنی بنا لیتے۔

جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ جسٹس فائز عیسیٰ پر بطور جج کرپشن کا کوئی الزام نہیں۔ بابر ستار نے کہاکہ ایسا کوئی مواد نہیں کہ لندن اثاثے جسٹس فائز عیسیٰ کی ملکیت ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ کیا جسٹس فائز عیسیٰ کے بچوں کے پاسپورٹ سرکاری ہیں ۔جس پر وکیل کی جانب سے بتایاگیا کہ دونوں بچوں کے پاس سپینش پاسپورٹ ہیں۔ بابر ستار نے کہاکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق لندن فلیٹ جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے زیر استعمال ہیں۔

بابر ستار نے دلائل کے دوران پانامہ کیس کا حوالہ دیا اور کہاکہ پانامہ فیصلے کے مطابق مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں،زیرکفالت نہ ہونے پر نوازشریف مریم کے اثاثے ظاہر کرنے کے پابند نہیں تھے، جسٹس فائز عیسیٰ آرٹیکل 209 کے تحت تحفظ نہیں مانگ رہے، جسٹس فائز عیسیٰ چاہتے ہیں ٹیکس حکام الزامات کی انکوائری کریں۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ آرٹیکل 209 صرف تحفظ نہیں بلکہ استحقاق بھی ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کی سماعت کے دوران وزیر اعظم عمران خان کے بیان کا تذکرہ ہوا ۔ بابر ستار نے کہاکہ وزیر اعظم عمران نے گزشتہ روز چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس کو مخاطب کرکے بیان دیا،وزیر اعظم نے بیان میں امیر غرب کے لیے الگ الگ قانون کی بات کی،وزیر اعظم نے چیف جسٹس اور مستقبل کے چیف جسٹس کو معاملہ کی درستگی کی استدعاکی۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سیاسی بیانات کے لیے یہ فورم استعمال نہ کریں،کوئی بھی ادارہ مکمل پرفیکٹ نہیں ہے،ہر ادارے میں بہتری کی گنجائش ہوتی ہے ،ماتحت عدلیہ کے ایک جج کیوجہ سے پوری عدلیہ کو شرمندگی اٹھانا پڑی،اس روسٹرم پر وزیر اعظم اور انکی اہلیہ بارے بات نہ کریں،وزیر اعظم کے بیان کو قانون کے تناظر میں دیکھ لیں گے۔

انہوںنے کہاکہ عدلیہ کو وقار اور عوام کو اعتماد کو بحال رکھنا ہے۔ وکیل نے کہاکہ میں سیاسی بات نہیں کر رہا،عمومی طور پر عدالتی فیصلہ سے ایک فریق خوش اور ایک ناخوش واپس جاتا ہے۔ وکیل نے کہاکہ وزیر اعظم کے بیان سے لگا وہ خوش نہیں ہیں،میں وزیراعظم پر تنقید ہر گز نہیں کر رہا۔بابر ستار نے کہاکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک تاثر قائم ہے ،جب ایک فریق عدالتی فیصلے سے ناخوش ہوتا ہے اس پر تنقید کرتا ہے۔

بابر ستار نے کہاکہ ہم دیکھ سکتے ہیں وزیراعظم بھی ایک حالیہ فیصلے سے خوش نہیں تھے جب انہوں نے یہ بیان دیا۔انہوںنے کہاکہ اثاثے چھپانے کا سوال تب پیدا ہو گا جب ظاہر کرنا لازم ہو ۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ جج صاحب کی اہلیہ پر تو اثاثے ظاہر کرنا لازم تھے ۔ بابر ستار نے کہاکہ اگر ٹیکس اتھارٹی مطمئن نہیں تھی تو 25 ہزار جرمانہ کر سکتی تھی ،جج کا احتساب اہلیہ یا بچوں کے اقدامات پر نہیں ہو سکتا ۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہاکہ اگر جج کے بچے اور اہلیہ فائدے انجوائے کررہے ہوں تو کیا پھر بھی انکے اقدامات پر احتساب نہیں ہو سکتا۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچے انکے عہدے کے فائدے نہیں لے رہے ،افتخار چوہدری کیس کے مطابق تو جج کے اہلخانہ کو بھی محتاط رہنا ہو گا ۔جسٹس سجاد علی شاہ نے کہاکہ جج کی بیٹی شادی ہونے کے بعد میڈیکل سہولیات بھی نہیں لے سکتی ،جج کے بیٹے کی عمر اگر 25 سال ہو تو وہ بھی والد کے عہدے کے فوائد نہیں لے سکتا ۔

جسٹس فیصل عرب نے کہاکہ اگر جائیداد کا تعلق جج سے ثابت ہو جائے تو پھر زیر کفالت ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں رہتا ۔بابر ستار نے کہاکہ جج کی اہلیہ مہنگی گاڑی چلائے تو جج کو کرپٹ نہیں کہا جا سکتا ۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر جج خود بھی مہنگی گاڑی چلائے تو بھی کرپٹ نہیں کہا جا سکتا ۔جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس پر عدالت میں قہقہہ لگا ۔

جسٹس منیب اختر نے کہاکہ کیا آ پ کہہ رہے ہیں کہ صرف کوڈ آ ف کنڈکٹ کی خلاف ورزی ہی مس کنڈکٹ ہے بابر ستار نے کہاکہ جج بھی شہری ہیں روزمرہ زندگی کے معمولات میں اہشوز ہو سکتے ہیں ۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ سپریم جوڈیشل کونسل ربر سٹمپ نہیں ،ججز کے خلاف دائر شکایات کونسل ختم کرتی ہے ججز کو علم بھی نہیں ہوتا ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ کیا وجہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کونسل کاروائی سے بچ رہے ہیں ۔

بابر ستار نے کہاکہ یہ کیس ریفرنس دائر کرنے سے متعلق صدر کے اختیار کا ہے ،سوال یہ ہے کہ ایگزیکٹو جج کو نوٹس جاری کر سکتے ہیں یا نہیں ۔ جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہاکہ اگر کوئی جج سے اعلی معیار چاہے تو یہ اچھی بات ہے ۔ بابر ستار نے کہاکہ کیس میں بھی جج اور انکی اہلیہ سے متعلق بات کی گئی ہے ،ریفرنس میں کوڈ آ ف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کا نہیں کہا گیا ۔

بابر ستار نے کہاکہ سوال یہ بھی ہے کیا پرانے عہدے پر مس کنڈکٹ موجودہ عہدہ سے ہٹانے کیلئے استعمال ہو سکتا ہے ۔میرا موقف ہے صدر کو ریفرنس بھیجنے سے پہلے شواہد کا جائزہ لینا چاہیے تھا ۔ انہوںنے کہاکہ صدر مملکت کے سامنے کسی جج کیخلاف مواد شک و شبہ سے بالاتر ہونی چاہیے۔جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ صدر مملکت کے سامنے مواد شک و شبہ سے بالاتر ہو تو کونسل کو بھیجنے کی کیا ضرورت ہے۔ بابر ستار نے کہاکہ صدر مملکت کا کسی جج کیخلاف ریفرنس بھیجا برا سریس ایشو ہے۔ بعد ازاں کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی گئی
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات