نیب راولپنڈی نے میگا کرپشن کیسز میں پلی بارگین کے ذریعے اربوں روپے کی ریکارڈ وصولی کرکے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے،

نیب کے یکطرفہ احتساب کا تاثر غلط ہے، کسی سے ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہو گی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا، صحت کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کا نیب راولپنڈی کے افسران میں سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب

منگل 19 نومبر 2019 19:03

نیب راولپنڈی نے میگا کرپشن کیسز میں پلی بارگین کے ذریعے اربوں روپے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 نومبر2019ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب راولپنڈی نے میگا کرپشن کیسز میں پلی بارگین کے ذریعے اربوں روپے کی ریکارڈ وصولی کرکے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، نیب کے یکطرفہ احتساب کا تاثر غلط ہے، 2017ء کے بعد کوئی میگا کرپشن سکینڈل سامنے نہیں آیا، جو کرے گا وہ بھرے گا، کسی سے ڈیل ہو گی نہ ڈھیل ہو گی اور نہ ہی کسی کو این آر او ملے گا، صحت کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈز ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں ہے، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیب ہیڈ کوارٹرز میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے نیب راولپنڈی کے افسران میں سرٹیفکیٹس تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نیب کے تمام افسران اور اہلکاران سخت محنت کر رہے ہیں، تمام ریجنز بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن راولپنڈی بیورو کی کارکردگی سب سے بہتر ہے تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب کا کسی سیاسی جماعت، گروہ اور گروپ سے تعلق نہیں، ہم صرف پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں، ریاست اور حکومت کے درمیان فرق ہے، حکومتیں چلی جاتی ہیں لیکن پاکستان کا قیامت تک تابندہ، پائندہ رہے گا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ وہ صاحب اقتدار ہے اور اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ انہوں نے نیب کے یکطرفہ احتساب کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہوائوں کا رخ بدل رہا ہے، پہلے 25 سے 30 سال کے پرانے مقدمات کو نمٹایا گیا اور اب دوسری طرف جا رہے ہیں، یکطرفہ احتساب کا الزام درست نہیں، جو جماعتیں 30، 35 سال اقتدار میں رہیں، جو چند ماہ ہوئے اقتدار میں آئے اس تناظر میں ان کی کرپشن کا جائزہ لینا ہو گا، 2017ء کے بعد کوئی کرپشن کا میگا سکینڈل سامنے نہیں آیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے تشخص کو مجروح کرنے کیلئے بے سروپا باتیں کی جا رہی ہیں، بی آر ٹی کیس پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی دیا ہوا ہے، اسی طرح ایم سی بی کے مقدمہ پر بھی لاہور ہائی کورٹ نے حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے، ان حکم امتناعی کے خاتمہ کیلئے اقدامات کر رہے ہیں تاکہ ان مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید برائے تنقید کی بجائے مثبت اور تعمیری تنقید کریں، دشنام طرازی، دھمکیوں اور لالچ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، عمر کے اس حصہ میں کوئی سمجھوتہ اور سرنڈر نہیں کروں گا، ڈھیل، ڈیل اور این آر او نہیں ہو گا، کسی سے دوستی، دشمنی نہیں، آئین و قانون کے مطابق کام کریں گے، نیب قوانین نہ پڑھنے والے نیب پر تنقید کرتے ہیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ وائٹ کالر کرائم اور دیگر مقدمات کی تفتیش میں بہت فرق ہے، وائٹ کالر کرائم کا کیس لاہور سے شروع ہو کر اسلام آباد سے ہوتا ہوا خلیجی ممالک جا ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وسائل کو بہترین انداز میں استعمال کرنا ضروری ہے، سکاٹ لینڈ جیسے اداروں کیلئے مقدمات نمٹانے کیلئے وقت مقرر نہیں کیا گیا، یہ شکنجہ کسنا کہ نیب 90 دن میں اپنا کام مکمل کرے، بہت مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو پکڑتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سیاسی انتقام لے رہے ہیں، ہم کیوں سیاسی انتقام لیں گے، ہر آدمی الله اور اپنے ضمیر کو جوابدہ ہے، کوئی شخص خامیوں سے پاک نہیں تاہم ان خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہمارے بس میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس کے خلاف شکایت کی جانچ پڑتال، انکوائریاں، انویسٹی گیشن اور بدعنوانی کے ریفرنس دائر ہیں اور وہ نیب کے ریڈار پر ہیں وہ نیب کو کیسے اچھا سمجھیں گے، عوام کو ان لوگوں کے جھانسے میں آنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو بین الاقوامی معتبر اداروں کی جانب سے نیب کی کارکردگی کے اعتراف کو دیکھنا چاہئے، نیب کے مقدمات میں سزا کی شرح 60 سے 70 فیصد ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان 100 ارب ڈالر کا مقروض ہے، 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، اگر ان سے ان رقوم کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ سوال کرنا جرم ہے، اگر یہ جرم ہے تو نیب یہ جرم کرتا رہے گا۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ صحت کیلئے کروڑوں روپے کا بجٹ ہونے کے باوجود ہسپتالوں میں بچوں کیلئے کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہیں، ارباب اختیار نے اس بجٹ کو صحیح استعمال نہیں کیا، وہ جوابدہ ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو، اب صوبہ کارڈ نہیں چلے گا، نیب کارروائی جاری رکھے گا، ملک میں ہسپتالوں کی حالت زار خراب ہے لیکن وہ لوگ زکام کے علاج کیلئے لندن اور امریکہ چلے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جہاں بھی کرپشن ہو گی نیب بلاامتیاز کارروائی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی منزل کا تعین کر لیا ہے، کرپشن فری پاکستان نیب کی منزل ہے، اس منزل کے حصول کیلئے نیب کسی صورت پیچھے نہیں ہٹے گا اور میگا کرپشن مقدمات کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مختلف عدالتوں میں 270 ریفرنس زیر سماعت ہیں جن کی مالیت 940 ارب روپے بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کے ریفرنس سننے والے ججوں کی تعداد 25 ہے جسے بڑھا کر 50 کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بدعنوانی کے مقدمات کو تیزی سے نمٹایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ 2017ء میں نیب میں ادارہ جاتی خامیوں کے خاتمہ اور افسران کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اصلاحات کا عمل شروع کیا گیا، پراسیکیوشن اور انویسٹی گیشن افسران کی شاندار کارکردگی کی بدولت نیب مقدمات میں سزا کی شرح 60 سے 70 فیصد ہے، نیب مقدمات میں تاخیر کی ذمہ داری نیب پر عائد نہیں کی جا سکتی، نیب مقدمہ تیار کرکے احتساب عدالت میں بدعنوانی کا ریفرنس دائر کرتا ہے تاہم ججوں کی تعداد کم ہونے کے باعث مقدمات تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیب میں پراسیکیوشن میں میرٹ پر بھرتیاں کی گئی ہیں، گذشتہ 2 سال کے دوران نیب عوام کیلئے امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے، امید ہے کہ وہ وقت جلد آئے گا جب ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ آج وہ لوگ بھی پس زنداں ہیں جن سے آنکھ سے آنکھ ملا کر بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ نیب عوام دوست ادارہ ہے اور دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھتا ہے، دیگر اداروں کو بھی نیب کے افسران اور اہلکاران کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہتھکڑی کا کلچر ختم کر دیا ہے، نیب ریمانڈ ختم ہونے کے بعد ملزم عدالتی تحویل میں چلا جاتا ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو نیب سے تصدیق کر لینی چاہئے۔ انہوں نے اکرم درانی کی والدہ کے حوالہ سے خبروں کو مسترد کر دیا، کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ نیب کے کسی دفتر میں کسی خاتون کو نہیں بلایا جائے گا بلکہ نیب کی خاتون افسران سوالنامہ لے کر جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ نیب افسران دوسروں کی عزت نفس کا خیال رکھیں، نیب کسی کو اس وقت نوٹس بھیجتا ہے جب یہ اعتماد ہو جائے کہ کیس بنتا ہے، نوٹس ملنے پر مذکورہ شخص نیب کے دفتر آ کر اپنے آپ کو کلیئر کرا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے مسائل کے حل کیلئے ہر ماہ کی آخری جمعرات کو شکایات سننے کا فیصلہ کیا اور تمام علاقائی بیوروز کے ڈائریکٹر جنرلز کو بھی ہر ماہ کی آخری جمعرات کو شکایات سننے کی ہدایات کیں، ہر شخص اپنی شکایت لے کر میرے پاس آ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جن سیاستدانوں کے کیسز نیب میں ہیں وہ دشنام طرازی کی بجائے پلی بار گین کریں اور بیرون ملک جائیں۔ انہوں نے کہا کہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 328 ارب روپے بدعنوان عناصر سے برآمد کرکے قوم خزانہ میں جمع کرائے ہیں جبکہ 2017ء سے اب تک ڈیڑھ سو ارب روپے وصول کرکے قومی خزانہ میں جمع کرائے گئے ہیں، نیب کی کوششوں سے حکومت کو ٹیلی کام سیکٹر میں 1.6 ارب روپے کا فائدہ ہوا ہے۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ایک صوبہ میں نیب کو کام کرنے نہیں دیا جا رہا، جب ایک کیس درج ہوتا ہے تو ایک وزیر پریس کانفرنس کرتا ہے اور وکیل بن کر کہتا ہے کہ یہ کیس بنتا ہی نہیں، نیب افسران وہاں بڑی محنت اور دلیری سے کام کر رہے ہیں، صاحب اقتدار نیب کیلئے مشکلات پیدا کرنے کی بجائے تعاون کریں، ان سے کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ گھبرانے اور ڈرانے کا زمانہ گزر گیا۔

انہوں نے کہا کہ کرکٹ کے معاملہ میں بھی شفافیت نہیں، یہ ملک کے وقار کا سوال ہے، سنگین نوعیت کے الزامات ہیں، چاہتے ہیں کہ ملک میں کھیل کو فروغ ملے، غریبوں، بیوائوں اور پنشنروں سے کروڑوں روپے وصول کرنے والوں کا یوم حساب آ چکا ہے، وہ لوٹی گئی رقوم واپس کرکے اپنے معاملات حل کریں، نیب اب تک کروڑوں روپے متاثرین میں تقسیم کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ وہ وقت جلد آئے گا جب ریاست مدینہ اپنی شکل اختیار کرے گی اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم سب اپنا احتساب کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ نیب سزا و جزا کا ادارہ نہیں ہے بلکہ نیب افسران اپنا کیس تیار کرکے احتساب عدالتوں میں پیش کرتے ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی نے کہا کہ راولپنڈی بیورو چیئرمین نیب جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں انتھک محنت سے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیب میں ادارہ جاتی سزا و جزا کا نظام وضع کیا گیا ہے، بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو انعام دیا جا رہا ہے، موجودہ چیئرمین کے دور میں نیب فعال ادارہ بن کر سامنے آیا ہے، سپریم کورٹ نے نیب پر اعتماد کرتے ہوئے جعلی اکائونٹس کیس نیب کے سپرد کئے۔

انہوں نے کہا کہ چیئرمین نیب کے اقدامات سے نہ صرف اب نیب افسران کی کارکردگی میں اضافہ ہوا ہے بلکہ ان کی فلاح و بہبود کیلئے بھی اقدامات کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جعلی بینک اکائونٹس سکینڈل وائٹ کالر کرائم کا جال تھا، چیئرمین نیب کی دانشمندانہ قیادت میں نیب افسران نے محنت اور جانفشانی سے اس کیس کو حل کیا۔ انہوں نے کہا کہ نوری آباد پاور پراجیکٹ میں تفتیشی ٹیم نے سخت محنت کرکے پلی بار گین کے ذریعے 2 ارب 12 کروڑ روپے کی ریکارڈ ریکوری کی، اسی طرح سٹیل ملز کی 562 ایکڑ قیمتی زمین کو 50 ایکڑ کے بدلے بلڈرز کے حوالہ کر دیا گیا، تفتیشی ٹیم نے 562 ایکڑ زمین میں سے 300 ایکڑ زمین پلی بار گین کے ذریعے واپس حاصل کی جس کی مالیت 11 ارب روپے بنتی ہے، یہ بھی تاریخی ریکوری ہے، اسی طرح لیاقت علی قائم خانی کے مقدمہ میں اربوں روپے نقدی، مہنگی گاڑیاں اور سونا برآمد کیا گیا۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے شعیب خان، غلام فاروق، اصغر خان، شاہ زیب درانی، محسن علی خان، احمد بن زاہد، محمد یونس خان اور حماد کمال کو تعریفی اسناد دیں جبکہ ان کیلئے 25، 25 ہزار روپے نقد انعام کا بھی اعلان کیا۔