پاکستان کا سیاچن کو سیاحوں کے لیے کھولنے کے بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار

بھارت نے سیاچن پر زبردستی قبضہ کیا تھا،متنازعہ علاقے کو بھارت کیسے سیاحت کے لیے کھول سکتا ہے؟بھارت سے خیر کی توقع نہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 21 نومبر 2019 12:56

پاکستان کا سیاچن کو سیاحوں کے لیے کھولنے کے بھارتی اقدام پر تحفظات ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 21 نومبر2019ء) پاکستان نے سیاچن کو سیاحوں کے لیے کھولنے کے بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار کر دیا۔تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ کا ہفتہ وار بریفینگ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں سرمہری کے حوالے سے اطلاع نہیں ملی۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے مزید کہا کہ بھارت نے سیاچن پر زبردستی قبضہ کیا تھا۔

سیاچن متنازعہ علاقہ ہے۔بھارت اس کو کیسے سیاحت کے لیے کھول سکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں بھارت سے کسی خیر کی توقع نہیں۔خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے گذشتہ ماہ سیاچن کو سیاحوں کے لیے کھولا تھا۔ بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے اعلان کیا کہ اب کوئی بھی سیاح سیاچن کی سیر کو جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

راجناتھ سنگھ نے کہا کہ سیاچن بیس کیمپ سے کُمار پوسٹ تک کا سارا علاقہ سیاحوں کے لیے کھول دیا گیا ہے۔

لداخ میں شیوک دریا کے کرنل چیوانگ رنجن پُل کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا کہ لداخ بڑی تعداد میں سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لداخ میں بہتر ذرائع ابلاغ بڑی تعداد میں سیاحوں کا رُخ اس طرف موڑ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں تقریباً 20 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سیاچن کے محاذ کو دنیا کا ایک انوکھا جنگی محاذ تصور کیا جاتا ہے۔

یہاں گذشتہ 35 برس سے پاکستان اور بھارت کی افواج مدِمقابل ہیں اور یہ جنگ پاکستان اور بھارت کے لیے ایسا دلدل بن چکی ہے جس سے نکلنا مستقبل قریب میں دونوں ممالک کے لیے ممکن نظر نہیں آتا۔ اس طویل عرصے میں تقریباً تین سے پانچ ہزار فوجی اور کروڑوں ڈالرز گنوانے کے باوجود دونوں ممالک کے عسکری حکام اس محاذ سے واپسی پر تاحال قائل نہیں ہو سکے ۔

گذشتہ 16 سالوں سے سیاچن پر بندوقیں استعمال نہ ہونے کے باوجود دونوں فریقین اپنے بنیادی موقف پر کسی قسم کی بھی لچک دکھانے سے قاصر ہیں۔ سیاچن گلیشیئر پر درجہ حرارت منفی پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں رہنے والے فوجیوں کی اکثریت مخالف فوج کے ساتھ جھڑپوں میں جان سے نہیں گئے بلکہ یہ لوگ برفانی طوفانوں، شدید سردی میں اعضا سن ہو جانے اور انتہائی بلندی پر آکسیجن کی کمی کی وجہ ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔ اکثر فوجیوں کو انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے سانس میں تکلیف، سر درد اور بلڈ پریشر کے مسائل شروع ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے فوجیوں کو ہر وقت برفانی لباس (اِگلو) میں ملبوس رہنا پڑتا ہے۔