آمدن سے زائد اثاثے، خورشید شاہ کے عدالتی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع

خورشید شاہ کا موبائل فورنزک کیلئے بھیجا گیا تھا ،فورنزک مکمل ہونے پر موبائل واپس کردیا جائے گا،نیب پراسیکیوٹر

ہفتہ 23 نومبر 2019 14:49

آمدن سے زائد اثاثے، خورشید شاہ کے عدالتی ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع
سکھر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 نومبر2019ء) احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں گرفتار پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشید احمد شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14روز کی توسیع کردی۔تفصیلات کے مطابق خورشید شاہ کو گزشتہ سماعت پر عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا تاہم ان کی طبیعت خراب ہونے کی ہونے کی وجہ سے انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

رہنما پیپلز پارٹی دل کی تکلیف کے باعث قومی ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج ہیں جہاں وزارت داخلہ سندھ نے ہسپتال کے ایمرجنسی روم کو سب جیل قرار دے دیا تھا، ریمانڈ مکمل ہونے پر ہفتہ کوانہیں بذریعہ ایمبولینس احتساب عدالت لایا گیا۔سماعت کے موقع پر نیب نے احتساب عدالت کے جج سے خورشید شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں مزید 15روز کی توسیع کرنے کی استدعا کی جو عدالت نے منظور کرتے ہوئے خورشید شاہ کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 روز کی توسیع کردی اور نیب کو انہیں دوبارہ 7 دسمبر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر خورشید شاہ کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ خورشید شاہ کا موبائل نیب کی تحویل میں ہے وہ دلوایا جائے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کا موبائل فورنزک کیلئے بھیجا گیا تھا فورنزک مکمل ہونے پر انہیں ان کا موبائل واپس کردیا جائے گا۔سماعت کے دوران جج نے خورشید شاہ سے مکالمہ بھی کیا اور ان سے پوچھ کہ آپ کی طبیعت کیسی ہے آپ کو کوئی پریشانی یا تکلیف تو نہیں ہے جس پر خورشید شاہ نے جواب دیا کہ میری طبیعت بہتر ہے اور الحمد للہ فی الحال کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں۔

خورشید شاہ کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل نیئر حسنین بخاری، مرکزی سیکرٹری اطلاعات سیدہ نفیسہ شاہ، صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ سید اویس قادر شاہ سمیت پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد عدالت کے باہر اور اندر موجود تھی۔ان کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سکھر انتظامیہ کی جانب سے سیکیورٹی کے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔

پیشی کے موقع پر صحافی کے اس سوال کہ آپ پر الزامات لگائے جارہے ہیں آپ کیا کہتے ہیں کے جواب میں خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ 90 روز پورے ہوجائیں پھر میں کھل کر بات کروں گا۔ایک اور صحافی نے خورشید شاہ سے سوال کیا کہ آپ پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ اب مختصر سے مختصر ہوتے جارہے ہیں تو خورشید شاہ نے کہا کہ آپ جرنلسٹ ہیں سکھر کے رہنے والے ہیں آپ الزامات کی تحقیقات کرلیں۔

دوسری جانب پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل نیئر حسنین بخاری نے کہا کہ خورشید شاہ کے خلاف انکوائری ابتدائی مراحل میں ہے اس لیے ان کی گرفتاری زیادتی ہے۔انہوں نے کہا کہ خورشید شاہ کے خلاف ابھی تک ریفرنس دائر نہیں کیا گیا جبکہ خود نیب کا موقف ہے کہ انکوائری چل رہی ہے تاہم احتساب عدالت نے جوڈیشل ریمانڈ دیتے ہوئے نیب کو ہدایت بھی کی کہ مقررہ وقت میں خورشید شاہ کے خلاف ریفرنس بھی دائر کیا جائے۔

نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ اگر نیب مقررہ وقت پر ریفرنس دائر نہیں کرے گا تو پھر قانون کا راستہ اختیار کریں گے۔خیال رہے کہ 18 ستمبر کو قومی احتساب بیورو نے قومی اسمبلی کے سابق اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کو آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں گرفتار کیا تھا۔اس سے قبل 31 جولائی کو نیب نے رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے خلاف انکوائری کی منظوری دی تھی، جس کے بعد اگست میں تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کیا گیا تھا۔

پی پی پی رہنما پر ہاؤسنگ سوسائٹی میں فلاحی پلاٹ حاصل کرنے کا الزام ہے جبکہ بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والے ادارے نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کی اپنے فرنٹ مین یا ملازمین کے نام پر بے نامی جائیدادیں بھی ہیں۔نیب کے مطابق خورشید شاہ کے خلاف انکوائری میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 9 (ای) اور شیڈول کے تحت بیان کردہ جرائم کے کمیشن میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

اگست میں احتساب کے ادارے نے سابق اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پر مبینہ کرپشن کے ذریعے 500 ارب روپے سے زائد کے اثاثے بنانے کا الزام عائد کیا تھا لیکن پی پی پی کے رہنما نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا تھا۔نیب ذرائع کے مطابق خورشید شاہ اور ان کے اہلخانہ کے کراچی، سکھر اور دیگر علاقوں میں 105 بینک اکاؤنٹس موجود ہیں، اس کے علاوہ پی پی رہنما نے اپنے مبینہ فرنٹ مین ’پہلاج مل‘ کے نام پر سکھر، روہڑی، کراچی اور دیگر علاقوں میں مجموعی طور پر 83 جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔

ان دستاویز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے پہلاج رائے گلیمر بینگلو، جونیجو فلور مل، مکیش فلور مل اور دیگر اثاثے بھی بنا رکھے ہیں۔اس ضمن میں مزید بتایا گیا تھا کہ خورشید شاہ نے مبینہ فرنٹ مین لڈو مل کے نام پر 11 اور آفتاب حسین سومرو کے نام پر 10 جائیدادیں بنائیں۔مذکورہ ذرائع نے انکشاف کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نے اپنے مبینہ ’فرنٹ مین‘ کے لیے امراض قلب کے ہسپتال سے متصل ڈیڑھ ایکڑ اراضی نرسری کے لیے الاٹ کرائی، اس کے علاوہ خورشید شاہ کی بے نامی جائیدادوں میں مبینہ طور پر عمر جان نامی شخص کا بھی مرکزی کردار رہا جس کے نام پر بم پروف گاڑی رجسٹرڈ کروائی گئی جو سابق اپوزیشن لیڈر کے زیر استعمال رہی۔

اس کے علاوہ یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسلام آباد میں خورشید شاہ کا زیر استعمال گھر بھی عمر جان کے نام پر ہے اور سکھر سمیت دیگر علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبے عمر جان کی کمپنی کو فراہم کیے گئے۔نیب ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ ادارے نے خورشید شاہ کی رہائشی اسکیموں، پیٹرول پمپز، زمینوں اور دکانوں سے متعلق تفصیلات بھی حاصل کرلیں ہیں۔یاد رہے کہ خورشید شاہ بھی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل، مریم نواز اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز سمیت اپوزیشن رہنماؤں کی اس طویل فہرست میں شامل ہوگئے، جو کرپشن کے الزامات پر زیر حراست یا ضمانت پر ہیں۔