Live Updates

اسٹیٹ بینک پاکستان کو ایک ارب 4 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا انکشاف

روپے کی قدر میں کمی سے مرکزی بینک کو 506 ارب 13 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 26 نومبر 2019 19:00

اسٹیٹ بینک پاکستان کو ایک ارب 4 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا انکشاف
کراچی(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔26 نومبر ۔2019ء) اسٹیٹ بینک پاکستان کو ایک ارب 4 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا انکشاف ہوا ہے جبکہ ایک سال پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو 175 ارب 67 کروڑ روپے سے زائد کا نفع ہوا تھا. مالی فائدوں اور سہولیات کے حصول کی خاطر گزشتہ حکومتوں کو بہت سے ایسے اقدامات اٹھانا پڑے جو ملکی مفاد، خود مختاری اور سالمیت کے منافی تصور کیے جاتے ہیں پاکستان نے 60ءاور 70ءکی دہائی میں ایسے ادارے قائم کیے جنہیں ہمارا مالی بوجھ اٹھانا تھا مگر وہ ایسے خسارے میں گئے کہ ہم پر ہی بوجھ بن گئے.

تحریکِ انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو امید بندھی تھی کہ خسارے میں چلنے والے اداروں میں کچھ بہتری نظر آئے گی‘ عمران خان کی حکومت سے یہ توقعات وابستہ کی گئیں کہ خسارے میں چلنے والی اسٹیل ملز، پی آئی اے، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان ریلوے، شعبہ توانائی کی کمپنیوں اور دیگر اداروں میں تیزی سے اصلاحات کی جائیں گی، انہیں یا تو فروخت کردیا جائے گا یا پھر ان کی تنظیمِ نو کرتے ہوئے منافع بخش بنانا جائے گا مگر ان اداروں نے ”نئے پاکستان“ میں خسارے کے تمام ریکارڈ ہی توڑ ڈالے.

اس وقت ملک کے کاروباری اداروں کا خسارہ دفاعی بجٹ سے زیادہ ہوگیا مالی سال 19 -2018 کے دوران حکومت کے کاروباری اداروں نے ایک ارب 622 روپے کا خسارہ کیا. اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی کتابوں میں کبھی نقصان درج ہی نہیں ہوا تھا مگر اس مرتبہ نئے پاکستان میں پہلے ہی سال یہ تاریخ بھی رقم ہوگئی کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کہ جس کے پاس ملک کے تمام منقولہ اثاثے (سونا، بانڈز، زرِمبادلہ ذخائر) ہوتے ہیں وہ ادارہ بھی خسارے کا شکار ہوگیا ہے.مقامی انگریزی جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کی بیلنس شیٹ ظاہر کی تو پتا چلا کہ وہ ادارہ جو حکومت کو کئی سو ارب روپے سالانہ منافع دیتا تھا، وہ مالی سال 2019ءکے اختتام پر ایک ارب 4 کروڑ روپے سے زائد کے خسارے کا شکار ہوگیا ہے‘ واضح رہے کہ محض ایک سال پہلے ہی اسٹیٹ بینک کو 175 ارب 67 کروڑ روپے سے زائد کا نفع ہوا تھا.

1956ءمیں اسٹیٹ بینک کی ذمہ داریوں میں اضافہ کیا گیا‘ جس کے تحت اسٹیٹ بینک کو ملک کے زر اور قرض کا انتظام سنبھالنے، ترقی کے حوالے سے پیش گوئی کرنے، ملک کے پیداواری وسائل کو بروئے کار لانے کے لیے قومی مفاد میں زری استحکام برقرار رکھنے کا کام انجام بھی دینا تھا. 1994ء اور 1997ءمیں اسٹیٹ بینک کے قوانین میں تبدیلیاں لاتے ہوئے اسے پہلے سے زیادہ خودمختار ادارہ بنایا گیا۔

(جاری ہے)

ان قوانین کے تحت بینکاری صنعت سے متعلق تمام اختیارات اسٹیٹ بینک کے حوالے کردیے گئے، مالیاتی پالیسی کو آزاد کردیا گیا اور حکومت کے لیے اسٹیٹ بینک سے قرض لینے کی حد مقرر کردی گئی.

اس طرح اسٹیٹ بینک کرنسی نوٹوں کا اجرا اور مالیاتی نظام کی نگرانی کرنے والا، بینکوں اور حکومت کے لیے آخری قرض دہندہ، مانیٹری پالیسی جاری اور اسے نافذالعمل کرنے والا ادارہ بن گیا‘اس کے علاوہ حکومتی قرضوں کی مینجمنٹ، زرِمبادلہ ذخائر کا انتظام سنبھالنے، عالمی مالیاتی اداروں سے قریبی تعلق قائم رکھنے اور بچتوں و سرمایہ کاری کو فروغ دینے کا کام بھی اسی ادارے کو سنبھالنا پڑتا ہے.

اسٹیٹ بینک کے خسارے کے بارے میں نجی ٹی وی گفتگو کرتے ہوئے گورنرسٹیٹ بنک رضا باقر نے کسی قسم کی فکر یا پریشانی ظاہر کیے بغیر کہا کہ اسٹیٹ بینک کے مجموعی غیر ملکی اثاثوں میں کمی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کو مالیاتی نقصان اٹھانا پڑا. اسٹیٹ بینک کے غیر ملکی اثاثوں کی بڑی مالیت امریکی ڈالر میں ظاہر کی جاتی ہے مگر اسٹیٹ بینک اپنی غیر ملکی زرِمبادلہ ذخائر کو Special Drawing Rights (ایس ڈی آر) اور امریکی ڈالر میں رکھتا ہے‘آئی ایم ایف نے ڈالر کی اجارہ داری ختم کرتے ہوئے ترقی یافتہ ملکوں کی کرنسی پر مشتمل ایک یونٹ قائم کیا ہے جس کو ایس ڈی آر کہا جاتا ہے ایک ایس ڈی آر 0.8 گرام سونے کے مساوی ہوتا ہے ایس ڈی آر میں ڈالر کی قدر 41.73 فیصد، یورو کی قدر30.93 فیصد، چینی کرنسی یوان 10.92 فیصد، جاپانی ین 8.33 فیصد اور برطانوی پاونڈ 8.09 فیصد کی شرح سے تعین ہوتا ہے.

پی ٹی آئی حکومت اقتدار میں آتے ہی شرح مبادلہ سے متعلق اپنی اپوزیشن والی پوزیشن سے ہٹ گئی اور دعوٰی کیا کہ ملکی ایکسچینج ریٹ کو غلط طور پر مستحکم رکھا گیا ہے. حکومتی ایما پر اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کو تیزی سے گرانا شروع کیا، یوں مالی سال 19ئ-2018ءکے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 38 روپے 56 پیسے کی کمی ہوئی جبکہ ایس ڈی آر کے مقابلے میں روپیہ 80 روپے 82 پیسے سستا ہوا سی دوران روپے کی قدر میں کمی کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ ذخائر میں بھی تیزی سے کمی واقع ہوئی ان دونوں وجوہات کی بنا پر پاکستان کے غیر ملکی اثاثے بہت کم یا نقصان میں چلے گئے.

اسٹیٹ بینک کے سالانہ حسابات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ صرف شرحِ مبادلہ میں کمی سے اسٹیٹ بینک کو 506 ارب 13 کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جبکہ 2018ءمیں اسٹیٹ بینک کو 72 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا. روپے کی قدر میں گراوٹ اور زرِمبادلہ کے ذخائر کی کمی سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے کے لیے حکومت اور اسٹیٹ بینک نے کرنسی نوٹوں کو چھاپنے کی پالیسی اپنائی‘اسٹیٹ بینک سے قرض حاصل کرنے کی حکومتی پالیسی سے ایک طرف معیشت میں گرانی یا مہنگائی پیدا ہوئی تو دوسری طرف اسٹیٹ بینک کو ہونے والے خسارے کو کم کرنے میں مدد ملی حکومتی قرضے کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کی سودی آمدنی 646 ارب روپے ہوگئی جوکہ گزشتہ مالی سال کے اختتام میں 331 ارب روپے تھی‘اس طرح اسٹیٹ بینک نے 105 فیصد اضافی رقم سودی آمدنی کی مد میں حاصل کی جبکہ قرضوں کے ری فنانس پر اسٹیٹ بینک کو 11 ارب 94 کروڑ روپے کا نفع ہوا ہے.

اسٹیٹ بینک نے سودی آمدنی میں اضافے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی اپنائی اور بنیادی شرحِ سود میں سوا 13 فیصد تک اضافہ کیا گیا بنیادی شرحِ سود میں اضافے سے اسٹیٹ بینک کو 254 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوئی. اسٹیٹ بینک کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 11 ہزار 467 ارب روپے سے زائد تک پہنچ گئی، اس طرح اسٹیٹ بینک کے اثاثے پہلی مرتبہ ہزار ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں محض ایک سال میں اثاثوں کی مالیت میں 3 ہزار 734 ارب روپے کا اضافہ دیکھا گیا، اور ایسا حکومتی قرضوں کی وجہ سے ہوا ہے.

گزشتہ مالی سال کے دوران زیرِ گردش کرنسی میں بے پناہ اضافہ ہوا ملک میں بلند شرحِ سود، حکومت کا مرکزی بینک سے قرض لینے کی پالیسی اور دیگر امور اس اضافے کی وجوہات میں شامل ہیں کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے اخراجات میں اضافہ دیکھا گیا ہے کرنسی نوٹوں کی چھپائی پر 11 ارب 41 کروڑ روپے خرچ ہوئے جبکہ مالی سال 18ء-2017ءمیں یہ اخراجات 9 ارب 36 کروڑ روپے تھے یوں صرف ایک سال میں کرنسی نوٹوں کی چھپائی کے اخراجات میں 22 فیصد اضافہ ہوا ہے.

اسٹیٹ بینک کے انتظامی اخراجات میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے یہ اخراجات 20 کروڑ 30 لاکھ روپے سے بڑھ کر 27 ارب 90 کروڑ روپے تک پہنچ چکے ہیں. پاکستان میں مرکزی بینک یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو تاریخ میں پہلی مرتبہ خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے مگر یہ دنیا کا پہلا ایسا مرکزی بینک نہیں ہے جس کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا ہے اس سے قبل سوئیڈن، اسرائیل، امریکا اور برطانیہ کے مرکزی بینک بھی خسارے کا سامنا کرچکے ہیںمگر ان بینکوں کو خسارے کی وجہ مہنگائی (انفلیشن) کے بجائے ڈی فلیشن یا قیمتوں میں گراوٹ تھی.
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات