کالاباغ ڈیم پاکستان کی زرعی لائف لائن ہے جس کی تعمیر ناگزیر ہے، تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورتی کانفرنس بلا ئی جائے، پاکستان کسان بورڈ کی اپیل

بدھ 27 نومبر 2019 14:48

فیصل آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 27 نومبر2019ء) پاکستان کسان بورڈ نے کہاہے کہ زرعی ضروریات، سستی توانائی کے حصول اور معاشی استحکام کیلئے کالا باغ ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے لہٰذا حکومت تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورتی کانفرنس منعقد کر کے ڈیم کی تعمیر یقینی بنا ئے کیونکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے سندھ کی 27 لاکھ ، خیبر پختونخواہ کی 8لاکھ بنجر اراضی سمیت ٹھٹھہ و بدین کی 25لاکھ ایکڑ اراضی بھی سیرا ب ہو گی جبکہ ابتدائی طور پر ہزار وں میگاواٹ سستی بجلی بھی بن سکے گی اس لئے تمام جماعتیں محب وطن پاکستانی ہونے کے ناطے تکنیکی بنیادوں کی بجائے سیاسی بنیادوں پرڈیم کی تعمیر کی مخالفت سے گریز کریں تاکہ بھارت کی آبی جارحیت سے بچنے سمیت پاکستان میں سرسبز زرعی انقلاب لانے اور توانائی کے بحران سے بچنے کے ساتھ ساتھ ملک کو معاشی استحکام سے ہمکنار کرنا ممکن ہو سکے۔

(جاری ہے)

پاکستان کسان بورڈ فیصل ۱ٓباد کے رہنما میاں ریحان الحق نے بتایاکہ 1991ء میں قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب ، سندھ، سرحد ، بلوچستان نے مشترکہ و متفقہ طور پر کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کی تھی تاہم بعدازاں نامعلوم سیاسی وجوہات اور مصلحتوں کی بناء پر تکنیکی بنیادوں کی بجائے سیاسی بنیادوں پر اس کی مخالفت کاآغازکردیاگیا ۔

انہوںنے بتایاکہ مستقبل میں کالاباغ ڈیم پاکستان کی زرعی لائف لائن ثابت ہو گا اسلئے وہ تمام صوبوں کے محب وطن سیاسی رہنمائوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کریں ۔ انہوںنے کہاکہ یہ حکومت کا بھی فرض ہے کہ اگر وفاق کی کسی اکائی کو کالاباغ ڈیم کی تعمیر پر کوئی خدشات یا تحفظات ہیں تو اسے بھی دلائل کے ساتھ دور کیاجائے تاکہ ڈیم کی تعمیر سے بجلی کے بحران کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ زرعی آبپاشی کیلئے پانی کی کمی سے نجات مل سکے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آبپاشی کیلئے دستیاب 140 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے 36 ملین ایکر فٹ پانی دریائوں ،26 ملین ایکڑ فٹ پانی نہروں ، 35 ملین ایکڑ فٹ پانی کھالوں اور 12 ملین ایکڑ فٹ پانی کھیتوں میں دوران آبپاشی ضائع ہو جاتاہے لہٰذا شعبہ زراعت کو بری طرح متاثر ہونے سے بچانے کیلئے پانی کے ایک ایک قطرے کو انتہائی حفاظت سے زرعی استعمال میں لانا ہو گا تاکہ زیادہ سے زیادہ زرعی اراضی کو آبپاشی کی سہولت فراہم کرکے گندم سمیت دیگر زرعی اجناس کی بمپر کراپس حاصل کی جاسکیں ۔

انہوںنے کہاکہ پاکستان کا نہری نظام دنیا کا بہترین اریگیشن سسٹم ہے تاہم ہمیں ملینز ایکڑ فٹ پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کرناہوں گے۔ انہوںنے بتایاکہ انڈس ریور سسٹم کے تحت پاکستان کوملنے والے 140 ملین ایکڑ فٹ پانی میں سے اکثریتی مقدار کھیتوں میں دوران آبپاشی ضائع ہو جانے سے شعبہ زراعت بری طرح متاثر ہو رہاہے اور مسلسل پانی کی کمی سے زرعی اجناس کی پیداوار میں بھی بتدریج کمی رونما ہو رہی ہے ۔

انہوںنے کہا کہ بہتر حکمت عملی سے کھالوں اور کھیتوں میں آبپاشی کے مراحل کے دوران ضائع ہونے والے 47ملین ایکڑ فٹ پانی کی بہت بڑی مقدار کو بچانا ممکن ہے تاہم اس کیلئے کھالوں کو پختہ کرنے سمیت ذمہ داری کا مظاہرہ کرناہوگا۔ انہوںنے بتایاکہ جن علاقوں میں زرعی رقبہ جات ٹیلوں پر واقع ہیں اور وہاں کا زیر زمین پانی بھی کڑواہے وہاں بہتر واٹر مینجمنٹ کی ضرورت و اہمیت اور افادیت مزید بڑھ جاتی ہے ۔

انہوںنے بتایاکہ فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اکثر علاقوں میں بعض کاشتکار پانی کی کمی کے پیش نظر ٹیوب ویلوں کا ناقص پانی استعمال کر رہے ہیں جس سے فصلوںکو نقصان پہنچے کے ساتھ ساتھ زمین کی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ کاشتکار کھیتوں کی جدید لیزر ٹیکنالوجی سے لیولِنگ ، کھیتوںکی اصلاح اور ڈرپ اریگیشن کو فروغ دے کر پانی کی کمی کو پورا کرسکتے ہیں۔ انہوںنے زرعی ماہرین ، آبی ایکسپرٹس اور محکمہ زراعت کے حکام سے بھی اپیل کی کہ وہ کسانوں کو کم پانی استعمال کرنے والی فصلات کی کاشت کی ترغیب دیں اور اصلاح آبپاشی بھی یقینی بنائیں تاکہ ملک میں سرسبز انقلاب لانے کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔