سپریم کورٹ نے آرمی چیف مدت ملازمت توسیع کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا

عدالت نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر مشروط رضامندی ظاہرکردی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 28 نومبر 2019 09:46

سپریم کورٹ نے آرمی چیف مدت ملازمت توسیع کیس میں فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 نومبر ۔2019ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی آج تیسری سماعت جاری ہے.تین رکنی بنچ نے مشاورت کے بعد آرمی چیف توسیع کیس پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہےعدالت محفوظ شدہ فیصلہ آج 12بجے کے بعد سنائے گی عدالت نے کہا کہ سمری میں عدالت کی ہدایت والا حصہ حذف کریں اورسمری میں تصیح اور چھ ماہ میں قانون سازی کرنے کی انڈرٹیکنگ کے بعد تین دن میں جمع کروائیں افسوسناک ہے کہ آرمی چیف کو خود آکر آپ کو مشورہ دینا پڑا.

(جاری ہے)

عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ، جیورسٹ فاﺅنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر سماعت کر رہا ہے.حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان دلائل دے رہے ہیں جبکہ سابق وزیرقانون فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود ہیں جبکہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی جانب سے فروغ نسیم کا بار کونسل کا لائسنس بحال کر دیا، جس کے بعد اب وہ آرمی چیف کا کیس لڑ سکیں گے.

سماعت کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کرلیا، ساتھ ہی سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز بھی طلب کرلی. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کیا پینشن ملی تھیں‘ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 15 منٹ کا وقفہ کردیا چیف جسٹس نے کہا کہ 15 منٹ میں دونوں چیزیں فراہم کریں تب تک دیگر کیسز سن لیتے ہیں.

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کس رول کے تحت ہوئے‘ انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، جائزہ لیں گے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کن بنیادوں پر ہوئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے.بعد ازاں مختصر سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی.انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے.

اسی دوران جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے کے ایجنٹ کہا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم سوال پوچھیں اسی دوران جسٹس منصور نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں.

سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو. اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے، جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے.

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی‘عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے.