آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آرمی چیف کی مدت ملازمت کیس میں دوپہر کو شارٹ آرڈر جاری کرے گی

Muqadas Farooq Awan مقدس فاروق اعوان جمعرات 28 نومبر 2019 10:47

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کا فیصلہ محفوظ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 28 نومبر2019ء) آج سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیس کی سماعت ہوئی۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے آغاز پر ہی چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ نے کہا تھا کہ جنرل کبھی ریٹائرڈ نہیں ہوتا تو سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ اور جنرل کیانی کی توسیع کی مدت میں ملازمت کے کاغذات منگوالیں اس کے ساتھ ہی عدالت نے پندرہ منٹ کا وقفہ بھی دیا گیا.وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کاغذات منگوالیے گئے ہیں ؟جس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ کہہ دیا ہے کچھ دیر میں دستاویزات آجائیں گے. اٹارنی جنرل پھر اَڑگئے اور کہاکہ اب تک کوئی غلطی نہیں ہوئی اٹارنی جنرل نے کل رات منظور کی جانے والی نئی سمری عدالت میں پیش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالت کو کیوں ان معاملات میں گھسیٹ رہے ہیں اپنا بوجھ خود اٹھائیں سمری سے عدالت کا ذکر باہر نکالیں ‘چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا تاثر دینے کی کوشش نہ کی جائے کہ سپریم کورٹ کے کہنے پر کیا جارہا ہے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کی جانب سے جو سوالات اٹھائے گئے تھے ان پر عدالت کو مطمئن کیا جائے‘چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہونے والی تقرری پہلے سے کیسے مختلف ہے؟اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان اور آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود ہیں‘سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کر لیا‘چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا چاہتے ہیں جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کتنی پنشن ملی . انہوں نے ہدایت کی کہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویزات بھی پیش کریں، ان کی ریٹائرمنٹ کے نوٹیفکیشن کے کیا الفاظ تھے وہ بھی پیش کریں‘عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی . اٹارنی جنرل انورمنصور خان نے عدالت کو بتایا کہ دستاویزات کچھ دیر میں پہنچ جائیں گی‘عدالت نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم 15 منٹ میں دوسرے کیسز نمٹاتے ہیں آپ دستاویزات لے کر آئیں‘وقفے کے بعد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق سماعت دوبارہ شروع ہوئی‘اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کر دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو. اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے، جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے. اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی‘عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے. سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت پر عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

سپریم کورٹ آج ہی اس کیس کا فیصلہ سنائے گی۔عدالت دوپہر کو شارٹ آرڈر جاری کرے گی۔