سپریم کورٹ نے جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں6ماہ توسیع کی منظوری دیدی

حکومت مقررہ وقت کے دوران قانون سازی کو یقینی بنائے. عدالت کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 28 نومبر 2019 15:46

سپریم کورٹ نے جنرل قمرجاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں6ماہ توسیع کی منظوری ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 نومبر۔2019ء) سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی مشروط توسیع منظور کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ حکومت مقررہ وقت کے دوران قانون سازی کو یقینی بنائے. چیف جسٹس نے مختصر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 6ماہ میں اس معاملے پرقانون سازی کی جائے ‘چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزارریاض حنیف راہی کہاں ہیں ؟ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع چیلنج ہوئی ہے جس پر عدالت نے آئینی پہلوﺅں کا جائزہ لیا گیا ہے.

چیف جسٹس نے کہا کہ ترمیم پارلیمنٹ کا حق ہے لہذا پارلیمنٹ 6ماہ میں اس معاملے کا فیصلہ کرئے چھ ماہ کے بعد جائزہ لیں گے.

(جاری ہے)

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس معاملے میں قانون سازی کو یقینی بنائے عدالت نے فیصلہ میں کہا کہ عدالت آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6ماہ کی توسیع منظور کرتی ہے. سپریم کورٹ اپنا تفصیلی فیصلہ بعد میں سنائے گی‘ عدالت نے فیصلے میں ابتدائی طور پر کہا کہ حکومت 28 نومبر سے آرمی چیف کو تسیع دے رہی ہے، حکومت نے ایک موقف سے دوسرا موقف اختیار کر رہی ہے.

عدالت میں وفقے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم عدالت میں پیش ہوئے اور نئی دستاویز پیش کیں‘چیف جسٹس نے کہا کہ انتظار پر معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد ججز نے دستاویز کا جائزہ لیا، بعد ازاں مختصر فیصلہ سنایا گیا. قبل ازیں فیصلے سے قبل اٹارنی جنرل نے انڈرٹیکنگ اور نئی سمری عدالت میں جمع کروائیںعدالت نے آج سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا تھا اور قراردیا تھا کہ مختصرفیصلہ آج دوپہر ایک بجے سنایا جائے گا تاہم عدالتی کاروائی پونے تین گھنٹے سے زائدکی تاخیر سے شروع ہوئی اور عدالتی کاروائی نے 3بجکر 40منٹ پر فیصلہ پڑھنا شروع کیا.

اس اہم ترین کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ کر رہا ہے.عدالت نے حکم جاری کیا تھا کہ حکومت آرمی چیف کی تقرری کے نئے حکم نامے سے مدت نکال دے گی‘ حکومت 6 ماہ میں قانون سازی کرے گی‘وزارت دفاع کی سمری میں سپریم کورٹ کا ذکر ختم کیا جائے گا‘اور3سالہ مدت کا ذکر اورآرمی چیف کی تنخواہ اور مراعات واضح کرکے نوٹیفکیشن عدالت میں جمع کروائیں اور آج ہی ترمیم شدہ نوٹیفکیشن اور بیان حلفی عدالت میں جمع کروادیئے جائیں .عدالت نے نوٹیفکیشن سے سپریم کورٹ کی ایڈوائس کے الفاظ نکالنے کا حکم بھی دیا اور کہا کہ آپ ہمارے کندھے کیوں استعمال کرنا چاہتے ہیں.

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدتِ ملازمت میں توسیع اور ان کی جگہ لینے والے جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دستاویزات طلب کیں‘سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ’ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل کیانی کو کن شرائط پر توسیع ملی تھی. چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ہمیں بتایا گیا کہ جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر جنرل ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، تو جنرل راحیل کی دستاویزات دیکھنا چاہتے ہیں کہ ان پر کیا لکھا ہے اور اگر وہ ریٹائر نہیں ہوئے تو ان کو پینشن مل رہی ہے یا نہیں.

سماعت کے دوبارہ آغاز پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے جس پر بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ کل تو آپ کہہ رہے تھے جرنیل ریٹائر نہیں ہوتا. چیف جسٹس نے کہا کہ اس سمری میں عدالتی کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اپنا بوجھ خود اٹھائے، ہمارا کندھا استعمال نہ کرے‘ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ نئی سمری سے عدالت کا نام نکالا جائے.

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے یہ بھی کہا کہ آرمی چیف کا عہدہ آئینی ہے اور اس عہدے کو قاعدے اور ضابطے کے تحت پر کیا جانا چاہیے‘چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے پہلی دفعہ کوشش کی ہے کہ آئین پر واپس آئیں. عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ 4 نکات پر مشتمل تحریری بیان جمع کرائیں. عدالت نے کہا کہ اگر آپ کو قانونی سازی کے لیے درکار ہیں تو ہم 3ماہ کی مشروط توسیع کے احکامات جاری کردیتے ہیں جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ قانون سازی کے لیے 3ماہ کی بجائے6ماہ کا وقت دیا جائے چیف جسٹس نے کہا کہ افسوسناک ہے آرمی چیف کو سمری کی تیاری میں خود مشاورت دینا پڑی.

جس پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے مشاورت کے لیے تھوڑی دیر کا وقفہ لیا جس کے بعد چیف جسٹس نے عدالت میں آکر بتایا کہ فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے . چیف جسٹس نے کہا حکومت پہلی بارآئین پرواپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہوتوہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، عدالت نے توسیع کردی تویہ قانونی مثال بن جائےگی، لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل243میں پڑھتے ہوئے اضافہ کردیا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ جہاں مدت کاذکرنہ ہو تو حالات کے مطابق مدت مقررہوتی ہے، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں.

جسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، آپ تین سال کے لیے توسیع دے رہے ہیں، کل کوئی قابل جنرل آئے گاتوپھرکیا30سال کے لئے توسیع دیں گے، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پہلے توکسی کوایک سال کسی کو2سال کی توسیع دی گئی جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرہوتے ہیں، آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج کہہ رہے ہیں کہ ہو رہے ہیں.

چیف جسٹس نے کہا آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا پارلیمنٹ کو اس ابہام کودورکرنا ہے. چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کررہے ہیں، پھر ہم کو ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جاکرقانون بناکرآئیں، جوقانون72سال میں نہیں بن سکتاوہ اتنی جلدی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا اس وقت میرے پاس کوئی قانون نہیں سوائے دستاویزکے، ہم کوشش کررہے ہیں کہ معاملے پرکوئی قانون بنائیں.سماعت کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کرلیا، ساتھ ہی سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز بھی طلب کرلی‘چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کیا پینشن ملی تھیں.

ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 15 منٹ کا وقفہ کردیا چیف جسٹس نے کہا کہ 15 منٹ میں دونوں چیزیں فراہم کریں تب تک دیگر کیسز سن لیتے ہیں‘عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کس رول کے تحت ہوئے. ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، جائزہ لیں گے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کن بنیادوں پر ہوئی تھی، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے بعد ازاں مختصر سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوگیا ہے.

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں‘چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کردی.

انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے. ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے اسی دوران جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے.

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے کے ایجنٹ کہا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا‘اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں ففتھ جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم سوال پوچھیں.

اسی دوران جسٹس منصور نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں‘سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے، اگر زبردست جنرل مل گیا تو شاید مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو.

اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہوجاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل تو آپ کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا. ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے، جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے‘اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے،جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کرلیا جائے کہ آئندہ توسیع ہوگی یا نئی تعیناتی.

عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے.چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں،تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نہ کیا جائے ورنہ آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہوگا.

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، 3 سال کی تعیناتی کی مثال ہوگی لیکن یہ قانون نہیں،عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے‘اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا، آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں، اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے.

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں، نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا ذکر ہے.اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا.سماعت کے دوران جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں‘اس کو چیف جسٹس نے دیکھا اور کہا کہ کہیں نہیں لکھا جنرل (ر) پرویز کیانی کو توسیع کس نے دی تھی،جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے.

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل راحیل کو تو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں، ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں لیکن آئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے‘بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج مختصر فیصلہ جاری کریں گے، 6 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کرلے. پر سپریم کورٹ کے احاطے میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہیں جبکہ آنے والوں کوسخت چیکنگ کے بعدداخلے کی اجازت دی جارہی ہے اور غیر متعلقہ اشخاص کو سپریم کورٹ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں.