پٹھانوں کی تھائی لینڈ میں سلطنت

جنگ عظیم کے بعد برطانوی فوج میں شامل پختون وہیں آباد ہوگئے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 4 دسمبر 2019 13:07

پٹھانوں کی تھائی لینڈ میں سلطنت
بنکاک(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔04 دسمبر ۔2019ء) تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پر تاریخی قصبہ ایوتھیا واقع ہے‘ایوتھیا صدیوں سے بدھ مت تہذیب کا مرکز اور عظیم الشان مندروں کا مسکن رہا ہے‘اس تاریخی قصبے کے علاقے وت خی یان میں 79 سالہ حمداللہ گذشتہ کئی برسوں سے قیام پذیر ہیں وہ مقامی مسجد ”مسجد پاکستان“ کے امام ہیں .

حمداللہ جب مسجد سے باہر نکلتے ہیں تو ہر گلی اور نکڑ پر مرد اور خواتین انہیں ایسے سلام کرتے ہیں جیسے وہ ایوتھیا کی بہت ہی خاص شخصیت ہوں‘اس کی وجہ تھائی لینڈ کی روایتی عاجزی نہیں بلکہ حمداللہ کے ارد گرد رہنے والے سینکڑوں پختون باشندے ہیں جو اب ہیں تو تھائی لینڈ کے شہری ہیں لیکن ان کی جڑیں صدیوں پہلے سے پاکستان کے ساتھ منسلک ہیں . حمداللہ بتاتے ہیں کہ وہ تھائی لینڈ کی برادری تھائی پٹھان کے ان معدودے چند زندہ لوگوں میں سے ہیں جن کی پہلی نسل نے پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا (سابقہ صوبہ سرحد) سے تھائی لینڈ نقل مکانی کی اور پھر نہ صرف خود وہیں کے ہو کے رہ گئے بلکہ اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور دیگر رشتہ داروں کو وہاں بلایا اور اپنی دوسری، تیسری، چوتھی، پانچویں اور حتٰی کے کئی لوگوں نے تو چھٹی نسل تک وہاں آباد کی بین القوامی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق .

اس وقت تھائی پٹھان تھائی لینڈ کی مقامی برادریوں میں سے ایک بڑی اور با اثر برادری ہے جو کاروبارِ مملکت سے لے کر زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے‘تھائی پٹھان کمیونٹی کی تعداد کے بارے میں مختلف حلقوں کی مختلف آرا ہیں اور چونکہ بہت سے پختون اب تھائی لینڈ کے مقامی رنگ میں مکمل طور پر رنگ چکے ہیں لہٰذا ان کی تعداد کے بارے میں سو فیصد درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے تاہم تھائی پٹھان ایسوسی ایشن (تھائی پاکستان فرینڈشپ ایسوسی ایشن) کے مطابق ان کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب ہے، تھائی لینڈ میں پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد کے مطابق قریباً ڈھائی لاکھ اور حمداللہ کے مطابق بے شمار ہے‘پاکستانی تھائی پختونوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کی ایک بڑی وجہ تھائی پختونوں کی اپنے رشتے داروں کے ہاں شادیاں ہیں۔

(جاری ہے)

اکثر تھائی پختون اپنے بیٹوں کی تعلیم کے لیے پاکستان میں قائم مدرسوں کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ وہاں سے اپنے رشتےداروں کے ساتھ شادیاں کر کے لوٹتے ہیں جبکہ تھائی پختون لڑکیوں کی اکثریت کی شادی بھی ان کے تھائی یا پاکستانی کزنز کے ساتھ ہی ہوتی ہے .

پاکستانی پختونوں کی پہلی نسل کی تھائی لینڈ آمد کے بارے میں مختلف روایات ہیں، تاہم ایک مشترکہ روایت یہ ہے کہ ان کے تھائی لینڈ پہنچنے میں برطانوی راج کے حالات کار فرما تھے‘حمداللہ کے مطابق بہت سے لوگ یا تو برطانوی فوج کے سپاہی ہونے کے ناطے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر اس وقت کے ملک سیام گئے اور واپس نہیں لوٹے اور بہت سے دوسرے پٹھان روزگار اور کاروبار کی خاطر برطانوی ہندوستان کے مشرقی شہروں سے ہوتے ہوئے برما کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گئے .

تھائی پٹھان ایسوسی ایشن کے صدر عمر خان ایوب خیلی کا خیال ہے کہ کیونکہ اس وقت یہ پورا علاقہ انگریزوں کے زیر تسلط تھا لہٰذا سیام میں آباد ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی .تاہم پختون جب ایک مرتبہ سیام پہنچے تو انہوں نے اس خطے کو اپنے لیے بہت بابرکت پایا‘اس زمانے میں سیام جس کا نام بعد میں تھائی لینڈ رکھ دیا گیا میں گوشت کی فراوانی نہیں تھی اور مقامی باشندے جانوروں کو ذبح کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل تصور کرتے تھے‘جب وہاں پہنچنے والے اولین پختونوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے مذبح خانے کھول لیے بلکہ جانوروں کے بہت بڑے بڑے فارم ہاﺅسز بھی کھولے اور ان کے لیے چارے کا بندوبست کرنے کے لیے زمینیں خریدیں، جہاں زراعت کو بھی فروغ دیا جب ان کا کاروبار پھیلنا شروع ہوا اور اس کو سنبھالنے کے لیے افرادی قوت کی کمی محسوس ہوئی تو انہوں نے پاکستان سے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور دیگر رشتہ داروں کو وہاں بلانا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے پختون پورے تھائی لینڈ میں پھیل گئے اور انہوں نے وہاں پر اپنے مذبح خانے، فارم ہاﺅسز اور چراہ گاہیں آباد کر لیں .

ان پختونوں نے وہاں تھائی لڑکیوں سے بھی شادیاں کیں اور یوں تھائی پٹھانوں کا کنبہ بڑھتا چلا گیا، جس میں آج بھی اضافہ ہو رہا ہے‘جب مختلف پختون قبائل کے لوگ تھائی لینڈ پہنچے اور وہاں اپنی اپنی جاگیریں قائم کیں تو ان میں روایتی مخاصمت اور دشمنی نے بھی جنم لیا اور انہوں نے اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور پھر انتقام لینا شروع کر دیا .

کچھ روایات کے مطابق انہوں نے اپنی جاگیروں کے قیام کی مخالفت کرنے والے مقامی تھائی باشندوں کو بھی مارا اور اپنی جائیدادوں کی وسعت میں حائل ہر رکاوٹ کو مٹا دیا‘کچھ دیگر روایات کے مطابق انگریز حکمرانوں نے ان کی دلیری کو دیکھتے ہوئے انہیں مقامی مزاحمتی تھائی گروپوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھی استعمال کیا اور انہیں اپنا اثر و رسوخ جمانے کے لیے ہر طرح کی کھلی چ±ھوٹ دی ان سارے عوامل نے انہیں ایک مافیا کی پہچان بھی دے دی جس کے بعد انہیں قدم جمانے میں مزید آسانی ہو گئی .

پھر ایک وقت آیا کہ سب پختونوں کے بڑے خان ”بھائی خان“ کی رسائی براہ راست سربراہ مملکت تک ہو گئی اور وہ جب چاہتے حکومت کے کسی بھی رکن سے ملنے چلے جاتے کہا جاتا ہے کہ جب بھائی خان کا قافلہ بنکاک کی سڑکوں سے گزرتا تو لوگ کھڑے ہو کر ان کی گاڑیاں دیکھتے اور ان کی دہشت کا مشاہدہ کرتے . بھائی خان آج بھی تھائی لینڈ کا ایک طلسماتی کردار ہے‘کچھ لوگوں کے قریب وہ ایک مافیا تھے اور کچھ کے قریب ایک سمگلر لیکن تھائی پٹھان انہیں اپنا باپ اور محسن مانتے ہیں بھائی خان ان اولین پختونوں میں سے ایک تھے جو بیسویں صدی کے اوائل میں تھائی لینڈ پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف چھا گئے انہوں نے تھائی لینڈ کے علاقے سیرابوری میں اپنی باقاعدہ سلطنت قائم کی ان کے ایک فون یا پیغام پر تھائی مشینری ہل جاتی .

آج بھی تمام’ ’تھائی پٹھان“ بھائی خان کا نام انتہائی احترام سے لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے پٹھانوں کی بے پناہ مدد کی انہوں نے پاکستان سے لوگوں کو بلایا اور ان کو وہاں کاروبار کرنے میں مدد دی ’تھائی پٹھانوںکا کہنا ہے کہ وہ ہر نئے آنے والے پختوں کو کاروبار یا روزگار قائم کر کے دیتے اور کئی لوگوں کو ذاتی جیب سے پیسے دے کر کہتے کہ کاروبار کرو، اگر پیسے کما لیے اور دل کیا تو واپس کر دینا نہیں تو بھول جانا‘بنکاک میں گذشتہ کئی دہائیوں سے مقیم لالہ ممتاز خان کے مطابق بھائی خان نے سو سال کے قریب عمر پائی اور طبعی موت مرے لیکن ان کے بیٹے دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے ان کی’سلطنت‘ کا نظام اب ان کے بھتیجوں اور داماد کے ہاتھوں میں ہے، تاہم خاندان میں جائیداد کے تنازعوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں .

تھائی پاکستان فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کمیونٹی کی مدد کے لیے قریباً 40 سال قبل قائم کی گئی لیکن اس میں تھائی پٹھانوں کی اکثریت کے باعث اس کو عرف عام میں ’تھائی پٹھان ایسوسی ایشن‘ کہا جانے لگا یہ ایسوسی ایشن پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ مل کر پختونوں اور دوسرے پاکستانیوں کے مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے اس کے زیر اہتمام پورے تھائی لینڈ میں 50 کے قریب رجسٹرڈ مساجد ہیں اور غریب اور بے سہارا پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے بھی یہ ایسوسی ایشن اپنا کردار ادا کرتی ہے . تھائی پختونوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین اپنی زندگی سے کافی مطمئن ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے شوہر روایتی پاکستانی مردوں کی نسبت ان کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں .