پٹھانوں کی تھائی لینڈ میں سلطنت
جنگ عظیم کے بعد برطانوی فوج میں شامل پختون وہیں آباد ہوگئے
میاں محمد ندیم بدھ 4 دسمبر 2019 13:07
(جاری ہے)
اکثر تھائی پختون اپنے بیٹوں کی تعلیم کے لیے پاکستان میں قائم مدرسوں کا انتخاب کرتے ہیں اور وہ وہاں سے اپنے رشتےداروں کے ساتھ شادیاں کر کے لوٹتے ہیں جبکہ تھائی پختون لڑکیوں کی اکثریت کی شادی بھی ان کے تھائی یا پاکستانی کزنز کے ساتھ ہی ہوتی ہے .
پاکستانی پختونوں کی پہلی نسل کی تھائی لینڈ آمد کے بارے میں مختلف روایات ہیں، تاہم ایک مشترکہ روایت یہ ہے کہ ان کے تھائی لینڈ پہنچنے میں برطانوی راج کے حالات کار فرما تھے‘حمداللہ کے مطابق بہت سے لوگ یا تو برطانوی فوج کے سپاہی ہونے کے ناطے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر اس وقت کے ملک سیام گئے اور واپس نہیں لوٹے اور بہت سے دوسرے پٹھان روزگار اور کاروبار کی خاطر برطانوی ہندوستان کے مشرقی شہروں سے ہوتے ہوئے برما کے ذریعے تھائی لینڈ پہنچ گئے . تھائی پٹھان ایسوسی ایشن کے صدر عمر خان ایوب خیلی کا خیال ہے کہ کیونکہ اس وقت یہ پورا علاقہ انگریزوں کے زیر تسلط تھا لہٰذا سیام میں آباد ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں تھی .تاہم پختون جب ایک مرتبہ سیام پہنچے تو انہوں نے اس خطے کو اپنے لیے بہت بابرکت پایا‘اس زمانے میں سیام جس کا نام بعد میں تھائی لینڈ رکھ دیا گیا میں گوشت کی فراوانی نہیں تھی اور مقامی باشندے جانوروں کو ذبح کرنا ایک مشکل اور پیچیدہ عمل تصور کرتے تھے‘جب وہاں پہنچنے والے اولین پختونوں کو اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے نہ صرف یہ کہ اپنے مذبح خانے کھول لیے بلکہ جانوروں کے بہت بڑے بڑے فارم ہاﺅسز بھی کھولے اور ان کے لیے چارے کا بندوبست کرنے کے لیے زمینیں خریدیں، جہاں زراعت کو بھی فروغ دیا جب ان کا کاروبار پھیلنا شروع ہوا اور اس کو سنبھالنے کے لیے افرادی قوت کی کمی محسوس ہوئی تو انہوں نے پاکستان سے اپنے بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں اور دیگر رشتہ داروں کو وہاں بلانا شروع کر دیا دیکھتے ہی دیکھتے پختون پورے تھائی لینڈ میں پھیل گئے اور انہوں نے وہاں پر اپنے مذبح خانے، فارم ہاﺅسز اور چراہ گاہیں آباد کر لیں . ان پختونوں نے وہاں تھائی لڑکیوں سے بھی شادیاں کیں اور یوں تھائی پٹھانوں کا کنبہ بڑھتا چلا گیا، جس میں آج بھی اضافہ ہو رہا ہے‘جب مختلف پختون قبائل کے لوگ تھائی لینڈ پہنچے اور وہاں اپنی اپنی جاگیریں قائم کیں تو ان میں روایتی مخاصمت اور دشمنی نے بھی جنم لیا اور انہوں نے اپنی برتری قائم کرنے کے لیے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور پھر انتقام لینا شروع کر دیا . کچھ روایات کے مطابق انہوں نے اپنی جاگیروں کے قیام کی مخالفت کرنے والے مقامی تھائی باشندوں کو بھی مارا اور اپنی جائیدادوں کی وسعت میں حائل ہر رکاوٹ کو مٹا دیا‘کچھ دیگر روایات کے مطابق انگریز حکمرانوں نے ان کی دلیری کو دیکھتے ہوئے انہیں مقامی مزاحمتی تھائی گروپوں کا قلع قمع کرنے کے لیے بھی استعمال کیا اور انہیں اپنا اثر و رسوخ جمانے کے لیے ہر طرح کی کھلی چ±ھوٹ دی ان سارے عوامل نے انہیں ایک مافیا کی پہچان بھی دے دی جس کے بعد انہیں قدم جمانے میں مزید آسانی ہو گئی . پھر ایک وقت آیا کہ سب پختونوں کے بڑے خان ”بھائی خان“ کی رسائی براہ راست سربراہ مملکت تک ہو گئی اور وہ جب چاہتے حکومت کے کسی بھی رکن سے ملنے چلے جاتے کہا جاتا ہے کہ جب بھائی خان کا قافلہ بنکاک کی سڑکوں سے گزرتا تو لوگ کھڑے ہو کر ان کی گاڑیاں دیکھتے اور ان کی دہشت کا مشاہدہ کرتے . بھائی خان آج بھی تھائی لینڈ کا ایک طلسماتی کردار ہے‘کچھ لوگوں کے قریب وہ ایک مافیا تھے اور کچھ کے قریب ایک سمگلر لیکن تھائی پٹھان انہیں اپنا باپ اور محسن مانتے ہیں بھائی خان ان اولین پختونوں میں سے ایک تھے جو بیسویں صدی کے اوائل میں تھائی لینڈ پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف چھا گئے انہوں نے تھائی لینڈ کے علاقے سیرابوری میں اپنی باقاعدہ سلطنت قائم کی ان کے ایک فون یا پیغام پر تھائی مشینری ہل جاتی . آج بھی تمام’ ’تھائی پٹھان“ بھائی خان کا نام انتہائی احترام سے لیتے ہیں کیونکہ انہوں نے پٹھانوں کی بے پناہ مدد کی انہوں نے پاکستان سے لوگوں کو بلایا اور ان کو وہاں کاروبار کرنے میں مدد دی ’تھائی پٹھانوںکا کہنا ہے کہ وہ ہر نئے آنے والے پختوں کو کاروبار یا روزگار قائم کر کے دیتے اور کئی لوگوں کو ذاتی جیب سے پیسے دے کر کہتے کہ کاروبار کرو، اگر پیسے کما لیے اور دل کیا تو واپس کر دینا نہیں تو بھول جانا‘بنکاک میں گذشتہ کئی دہائیوں سے مقیم لالہ ممتاز خان کے مطابق بھائی خان نے سو سال کے قریب عمر پائی اور طبعی موت مرے لیکن ان کے بیٹے دشمنوں کے ہاتھوں مارے گئے ان کی’سلطنت‘ کا نظام اب ان کے بھتیجوں اور داماد کے ہاتھوں میں ہے، تاہم خاندان میں جائیداد کے تنازعوں کی خبریں بھی آتی رہتی ہیں . تھائی پاکستان فرینڈ شپ ایسوسی ایشن کمیونٹی کی مدد کے لیے قریباً 40 سال قبل قائم کی گئی لیکن اس میں تھائی پٹھانوں کی اکثریت کے باعث اس کو عرف عام میں ’تھائی پٹھان ایسوسی ایشن‘ کہا جانے لگا یہ ایسوسی ایشن پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ مل کر پختونوں اور دوسرے پاکستانیوں کے مسائل کے حل میں مدد کرتی ہے اس کے زیر اہتمام پورے تھائی لینڈ میں 50 کے قریب رجسٹرڈ مساجد ہیں اور غریب اور بے سہارا پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے بھی یہ ایسوسی ایشن اپنا کردار ادا کرتی ہے . تھائی پختونوں سے شادی کرنے والی پاکستانی خواتین اپنی زندگی سے کافی مطمئن ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے شوہر روایتی پاکستانی مردوں کی نسبت ان کی بہت زیادہ عزت کرتے ہیں .مزید اہم خبریں
-
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان کے دوران پاک ایران گیس پائپ لائن کا تذکرہ سامنے نہیں آسکا
-
نواز شریف نے قمر باجوہ کو مدت ملازمت میں دوسری توسیع کی یقین دہانی کرائی تھی
-
حکومت کے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعوﺅں میں کتنی حقیقت ہے؟ماہانہ اعداد و شمار کو بنیاد بناکرنہیں کہا جا سکتا کہ بہتری آچکی ہے.معاشی ماہرین
-
صدر زرداری سے ائیر ایشیا ایوی ایشن گروپ کی ملاقات
-
عدالت نے علیمہ خان کی عبوری ضمانت کی درخواست منظور کرلی
-
ایرانی صدر کا دورہ کراچی، (کل) صبح 8 بجے تک موبائل سروس معطل رہے گی
-
کم سے کم اجرت 32000 ہے ، عمل نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائی کی جائیگی ، وزیرخزانہ
-
مجھے مسلم لیگ ن سے کیوں نکالا گیا؟ اس کی وجہ شہباز شریف پسند نہیں کرتے تھے
-
8 فروری کو ن لیگ پنجاب میں زیادہ سے زیادہ صرف 40 نشستیں جیتی
-
ٰآئی ایم ایف کے نئے پروگرام کیلئے اسٹاف لیول معاہدہ جولائی میں ہونے کا امکان ہے، محمد اورنگزیب
-
پنجاب میں ن لیگ ختم ہوگی تو کوئی ایسا ہوگا جو خلاء کو پُر کرے گا
-
نان بائی ویلفیئرایسوسی ایشن نے روٹی، نان کے سرکاری نرخ کو چیلنج کردیا
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2024, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.