بھارت کو شجر ممنوعہ سمجھ کر اس کے خلاف نہ بولنے کا طلسم ٹوٹ چکا ہے ، صدر آزاد کشمیر

دنیا کے منتخب ایوانوں میں اُٹھنے والی آوازوں اور عالمی میڈیا نے کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیہ کا ذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا ہے ،بھارت کشمیر میں ظلم کی داستان کو تبدیل کر کے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے ، کیوئین میر ی یونیورسٹی لندن میں سردارمسعود، ڈاکٹر عاصمہ اور شائستہ صفی کا خطاب

جمعرات 5 دسمبر 2019 18:59

لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 05 دسمبر2019ء) آزاد جموں و کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے کہا ہے کہ بھارت کو ’’شجر ممنوع‘‘ سمجھ کر اس کے خلاف نہ بولنے کا سحر اب دم توڑ چکا ہے اور دنیا کے اہم ممالک کے منتخب ایوانوں سے اس کے خلاف آوازیں بلند ہونے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔ بھارت داستان کشمیر کو تبدیل کر کے دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن برطانیہ ، فرانس ، یورپ کی پارلیمانز اور امریکی کانگر یس میں کشمیر کی صورتحال پر اُٹھنے والی آوازوں اور عالمی میڈیا نے بھارتی بیانیہ کو مسترد کر کے کشمیر میں جنم لینے والے انسانی المیہ کاذمہ دار بھارت کو ٹھہرایا گیا ہے ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے برطانیہ کی کوئین میری یونیورسٹی میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

(جاری ہے)

تقریب کا اہتمام کوئین میری یونیورسٹی میں قائم پاکستان سو سائٹی نے کیا تھا جس میں مختلف شعبہ جات میں زیر تعلیم طلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ دنیا کو کشمیر کی اصل صورتحال کا علم ہونے کے بعد اب وقت آ گیا ہے کہ ظلم کا شکار کشمیریوں کی زبانی حمایت سے آگے ب-ڑھ کر عملی اقدامات کیے جائیں اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل کیا جائے اور کشمیری عوام کو حق دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ مرضی سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔

اُنہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کا سلسلہ فی الفور بند ہونا چاہیے اور تنازعہ کشمیر کو سیاسی اور سفارتی طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے ۔ تنازعہ کشمیر کو جنوبی ایشیاء کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ اس تنازعہ کو حق و انصاف کے اُصولوں کے مطابق حل کروانا عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔

بھارتی حکومت کی طرف سے اس سال پانچ اگست اور اکتیس اکتوبر کو اُٹھائے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ یہ اقدامات نہ صرف ناجائز اور غیر قانونی تھے بلکہ ان کے ذریعے بھارت نے کشمیر پر چڑھائی کر کے ریاست پر ایک بار پھر قبضہ کیا، اسے بھارت میں مدغم کیا اور پھر اس کے حصے بخرے کر کے اسے اپنی کالونی میں بدلنے کی مذ موم حرکت کی کشمیریوں کی علیحدہ شناخت کو بھی چھین لیا ۔

اُنہوں نے کہا کہ پانچ اگست سے اب تک مقبوضہ کشمیر کے شہری اپنے گھروںمیںقید ہیں ، اُنہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عورتوں کے بے حرمتی کی جارہی ہے ۔ اُنہوں نے کہا کہ پانچ اگست کے اقدامات کے ذریعے بھارت نے کشمیریوں سے تعلیم ، ملازمت اور ملکیت جائیداد جیسے خصوصی حقوق چھین لیے اور اب اُنہیں یہ کہا جارہا ہے کہ اُن کی زمین اب جارح اور قابض ملک کی ملکیت ہے ۔

یہ سب کچھ کشمیر کی سر زمین پر غیر کشمیری ہندووں کو لا کر آباد کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جائے ۔ صدر سردار مسعود خان نے شرکاء تقریب کو بتایا کہ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے غیر قانونی اور ناجائز اقدمات سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کے ڈھول پیٹ رہا ہے اور آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے اور ایٹمی ہتھیار استعمال کر کے پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔

صرف یہی نہیں بلکہ بھارت اپنے مسلمان شہریوں کو شہریت کے حقوق سے محروم کرنے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے اور ہندو تو ا نظریے پر عمل کرتے ہوئے ہندووں مذہب کی بر تری کے نظریے کے تحت غیر ہندو شہریوں کے خلاف نفرت ، انتہا پسندی اور سخت گیری کو ہوا دے رہا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں شہری اپنے گھروں میں مقید ہیں ، ہزاروں شہری جیلوں میں بند ہیں ریاست کی معیشت تباہ ہو چکی ہے لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھارتی حکمران یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ مقبوضہ علاقے میں صورتحال معمول کے مطابق ہے ۔

اُنہوں نے کہا کہ بھارت کی سکارچڈ ارتھ پالیسی کے باوجود اس کا یہ دعویٰ کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع اور دہشت گردی کو ختم کرنا چاہتا ہے ایک دھوکہ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ۔ بھارت کا یہ خیال ہے کہ وہ دنیا کے اہم ممالک سے اپنے معاشی ، سیاسی اور اسٹرٹیجک تعلقات کے بنیاد پر کشمیر میں انسانوں کے قتل عام اور تباہی و بربادی کو جاری رکھنے میں کامیاب ہو جائے گا ۔

صدر آزاد کشمیر نے شرکاء تقریب سے اپیل کی کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہونے والے واقعات پر خاموشی تماشا ئی کا کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی کوششوں کو تیز تر کریں اور کشمیریوں کے جان و مال کو تباہی و بربادی سے بچانے کے لیے اپنا متحرک کردار ادا کریں ۔ ہم سب کو مل کر نفرت ، انتہا پسندی کی اُٹھتی لہر کا رُخ موڑنا ہو گا ۔ اُنہوں نے طلباء سے کہا کہ وہ سب مل کر سیاسی عمل کی حمایت اور حوصلہ افزائی کریں تاکہ جنگ کے منڈلاتے خطرات کو ڈالا جا سکے ۔

صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارت کے انتہا پسند حکمران مسلسل جنگ کے شعلوں کو ہوا دے رہے ہیں لیکن اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ جس آگ کو وہ بھڑکا رہے ہیں وہ خود بھی اس آگ میں جل کر راکھ ہو سکتے ہیں ۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں مسئلہ کشمیر کو پرُ امن سیاسی و سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی طرف پیشرفت کر کے صورتحال کو جنگ کی طرف جانے سے بچانا ہو گا ۔

اس مقصد کے لیے عالمی سیاسی رہنمائوں اور رائے عامہ کی قیادت کو آگے آنا ہو گا تاکہ کشمیریوں کو نسل کشی سے اور جنوبی ایشیاء کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچایا جا سکے۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ اور مس شائستہ صفی نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور بھارتی فوج کے قبضہ اور مظالم کی وجہ سے عورتوں اور بچوں کے ذہنی صدمہ سے دوچار خاندانوں کی کیفیت پر روشنی ڈالی ۔

اُنہوں نے کہا کہ بھارت کے تمام تر مظالم کے باوجود کشمیر کے بہادر بیٹے اور بیٹیاں اپنے مادر وطن کی آزادی اور جبر و استبداد کے خاتمہ کے لیے بے جگری سے لڑ رہے ہیں۔ اس موقع پر کو ئین میری یونیورسٹی میں پاکستان سوسائٹی کے طلبہ نے دلوں کو چھو دینے والی شاعری کے ذریعے کشمیرکی صورتحال اور وہاں ہونے والے مظالم سے شرکاء تقریب کو آگاہ کیا ۔