بھارت میں عصمت دری کے صرف ایک تہائی مقدمات میں مجرموں کو سزا ملی

جمعرات 5 دسمبر 2019 22:30

نئی دہلی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 دسمبر2019ء) بھارت میں عصمت دری کے واقعات میں صرف ایک تہائی مقدمات میں مجرموں کو سزا ہوئی ہے۔ بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے مطابق ملک میں عصمت دری کے مقدمات میں مجرموں کو سزا کی شرح محض 32.2 فیصد ہے۔ جو قتل کے مقدمات میں سزاؤں کی شرح سے بھی کم ہے۔ بھارتی شہر حیدرآباد میں خاتون ڈاکٹر کے ساتھ عصمت دری اور قتل کے واقعے کے خلاف ملک بھر میں غم و غصے اور ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن سرکاری اعدادو شمار کے مطابق عصمت دری کے صرف ایک تہائی مقدمات میں ہی مجرموں کو سزا ہوپاتی ہے۔

بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ قتل کے معاملات میں43.1 فیصد سزائیں سنائی گئیں۔

(جاری ہے)

بھارت میں حالیہ برسوں میں عصمت دری کے مقدمات میں سزاؤں کی تعداد میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔ لیکن ان واقعات کی چارج شیٹ داخل کرنے کی شرح کم ہوگئی ہے۔ این سی آر بی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ 2013ء میں عصمت دری کے مقدمات میں چارج شیٹ کی شرح 95.4 فیصد تھی 2017ء میں کم کر 86.6 فیصد رہ گئی ہے۔

2017ء میں عصمت دری کے 1,46,201 مقدمات درج کرائے گئے۔ ان میں سے صرف 18,333 مقدمات کی عدالتوں میں سماعت ہوسکی۔ جن مقدمات کی سماعت مکمل ہوئی ان میں سے صرف 5,822 کو ہی قصور وار ٹھہرایا گیا۔ 11,453مقدمات میں ملزمان کو بری کردیا گیا اور 824 مقدمات خارج کردیے گئے۔ سپریم کورٹ انڈیا کے وکیل کرونانندی کہتی ہیں کہ بھارت میں عصمت دری کے واقعات کے متعلق سرکاری اعداد وشمار حقیقت سے کافی دور ہوتے ہیں، کیونکہ متاثرین کی اکثریت سماجی بدنامی کے خوف سے پولیس کے پاس جاکر مقدمہ درج ہی نہیں کراتی اور جو ہمت کر کے پولیس کے پاس پہنچ جاتے ہیں انہیں اور ان کے گھر والوں کو طویل اور غیر یقینی قانونی لڑائی سے گزرنا پڑتا ہے۔

یوں تو حکومت نے عصمت دری جیسے جرائم کے مقدمات کی تیز رفتار سماعت کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کر رکھے ہیں تاہم وہاں سنائے گئے فیصلوں کو بعد میں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2017ء میں عصمت دری کے جن مقدمات کی سماعت ہوپائی ان میں سے ایک تہائی مقدمات تین برس پرانے تھے جب کہ بارہ ہزار سے زائد مقدمات پانچ برس سے زیر التوا تھے۔

وفاقی وزیر ہراسمنٹ کور بادل کا کہنا تھا عصمت دری کے مجرموں کے خلاف تیزی سے مقدمہ چلانے اور انہیں سخت سزائیں دینے کی ضرورت ہے، حکومت سے اپیل کروں گی کہ عصمت دری کے معاملات میں فیصلہ متاثرہ خاتون یا لڑکی کی عمر بیس سال ہے تو بیس ماہ کے اندر فیصلہ ہوجانا چاہیے تھا، انہوں نے پارلیمان میں کہا کہ حیدرآباد کی خاتون ڈاکٹر کی عصمت دری اور قتل کے معاملہ میں فیصلہ چند مہینوں کے اندر سنا دیا جائے گا اور مجرموں کو رحم کی اپیل دائر کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سزائے موت پانے والے مجرموں کے لیے رحم کی اپیل دائر کرنے کا کوئی امکان نہیں ہونا چاہیے۔2012ء میں نئی دہلی میں میڈیکل کی ایک طالبہ نربھیا کی اجتماعی عصمت دری اور موت پر ملک بھر میں زبردست ہنگامہ ہوا تھا جس کے بعد حکومت نے خواتین کے تحفظ کے حوالے سے متعدد اقدامات کیے تھے۔ وفاقی حکومت خواتین کے تحفظ کے لیے صوبائی حکومتوں کو اپنے یہاں منصوبوں کے نفاذ کے لیے خصوصی فنڈ بھی فراہم کرتی ہے لیکن ان کا مناسب استعمال نہیں ہو پاتا ہے۔

خواتین اور بہبود اطفال کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کئی صوبوں نے اس فنڈ سے ایک پیسہ بھی استعمال نہیں کیا۔ دہلی میں جہاں خواتین کے خلاف تشدد اور ہراساں کرنے کے سب سے زیادہ واقعات ہوتے ہیں وہاں حکومت نے متاثرہ خواتین کی مدد کے لئے جو فنڈز مہیا کئے ان کا بہت کم استمعال ہوتا ہے۔