العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر

عدالت مرکزی اپیل سے قبل جج ویڈیو کیس کے تناظر میں فیصلہ کرے گی‘اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژن بنچ18دسمبر کو سماعت کرئے گا

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 7 دسمبر 2019 12:40

العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔07 دسمبر ۔2019ء) العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف سابق وزیراعظم نواز شریف کی اپیل 18 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر ہو گئی ہے‘نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کالعدم کرنے کی اپیل اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کر رکھی ہے. اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر کر دی ہے تاہم عدالت نواز شریف کی مرکزی اپیل سے قبل جج ویڈیو کیس کے تناظر میں فیصلہ کرے گی‘جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ سماعت کرے گا‘جج ویڈیو کیس کے مرکزی کردار ناصربٹ نے نواز شریف کی اپیل میں فریق بننے کی درخواست کر رکھی ہے.

(جاری ہے)

نواز شریف نے ویڈیو کا فرانزک کرنے والے برطانوی ماہر سمیت 5 افراد کو عدالتی گواہ بنانے کی استدعا کی ہے‘العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل 18 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کر دی گئی ہے جب کہ نیب کی نواز شریف کی سزا بڑھانے کی اپیل بھی 18 دسمبر کو سماعت کے لیے مقرر کی گئی ہے.

یاد رہے کہ 24دسمبر 2018کوپاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سات سال قید کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں انہیں باعزت بری کر دیا گیا تھا‘ نواز شریف کو احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، ان کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے اور تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ کی سزا سنائی تھی.احتساب عدالت میں دائر کردہ ریفرنس کے مطابق العزیزیہ اسٹیل ملز سعودی عرب میں 2001 میں جلاوطنی کے دوران نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی جس کے بعد 2005 میں ہل میٹل کمپنی قائم کی گئی.

نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام لگایا تھاکہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے، جبکہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا تھاکہ نواز شریف نے ہل میٹل کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے اور بطور کمپنی عہدیدار تنخواہ بھی حاصل کی اور کمپنی کے نام سے اقامہ بھی ان کے پاس موجود تھا. العزیزیہ ریفرنس کے ساتھ فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت بھی جاری تھی جس میں انہیں بری کردیا گیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں عدالت نے انہیں سات سال قید، دس سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی، تمام جائیداد ضبط کرنے کے ساتھ تقریباً پونے چار ارب روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا تھا.

العزیزیہ ریفرنس میں سنائی گئی سزا کے خلاف یکم جنوری 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ احتساب عدالت کا فیصلہ غلط فہمی اور قانون کی غلط تشریح پر مبنی ہے نواز شریف سزا کے خلاف اپنے وکیل خواجہ حارث کے ذریعے اپیل دائر کی تھی. 21 جنوری کو عدالت نے نیب اور دیگر حکام کو نوٹسز جاری کیے، 25 فروری کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے طبی بنیادوں پر انہیں ضمانت دینے سے انکار کردیا جس پر 11 مارچ کو سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اور 26 مارچ کو عدالت نے ان کی چھ ہفتوں کے لیے طبی ضمانت منظور کرلی تھی جس دوران انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ تھی بعدازاں نوازشریف 24اکتوبر کو2019کو طبعی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی تھی.

ماہرین قانون کہتے ہیں نواز شریف کی چودھری شوگر ملز کیس میں ضمانت ہوئی اور العزیزیہ ریفرنس میں ہونے والی قید کی سزا قائم ہے اور رہائی کیلئے ضروری ہے کہ اس سزا پر بھی عمل درآمد معطل کیا جائے.