صوبائی حکومت 80فیصد فنڈز خرچ نہیں کرسکتی،واپس مرکز بھجوادی جاتی ہے،ایمل ولی خان

سواروپے سے پیدا کی جانیوالی بجلی 20روپے میں ہمیں واپس دی جارہی ہے،موجودہ نااہل حکومت پچھلے چھ سال میں کوئی منصوبہ شروع نہ کرسکی،بی آر ٹی غیرضروری منصوبہ تھا جس کا قرض سالوں تک عوام ادا کرتی رہیگی، اٹھارویں ترمیم کے بعد اے این پی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی،پانچ روزہ تنظیمی دورہ بنوں کے پہلے روز اجتماعات سے خطاب

پیر 9 دسمبر 2019 20:29

بنوں(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 دسمبر2019ء) عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ نئے اضلاع میں معدنیات پر قبضہ ہرگز برداشت نہیں کریں گے،انتہائی عجلت سے ایک ہی دن میں منظور کیا گیا قانون کسی خاص طبقے کو نوازنے کی تیاریاں ہیں جس کیلئے قانون اور احتجاج کا راستہ اپنائیں گے،ہمارا صوبہ سوا روپے فی یونٹ بجلی پیدا کررہی ہے لیکن اٹھارہ، بیس روپے فی یونٹ بجلی ہمیں واپس بیچی جارہی ہے،موجودہ حکومت پچھلے چھ سالوں میں پشتونوں کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی خاطرخواہ منصوبہ شروع نہ کرسکی۔

پانچ روزہ تنظیمی دورہ بنوں کے پہلے روزمختلف اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے کہا کہ صوبائی حکومت کو مرکز سے آنیوالا 80فیصد فنڈز واپس بھیجا جارہا ہے کیونکہ ان کے پاس نہ سوچ ہے اور نہ ہی منصوبہ بندی۔

(جاری ہے)

سب سے بڑی مثال پشاور کو کھنڈرستان میں تبدیل کرنیوالا منصوبہ بی آر ٹی ہے جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیا گیا تھا اور چھ مہینے میں تکمیل کے دعویدار آج بھی حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہیں۔

کرپشن کی یہ داستانیں کسی کو نظر نہیں آرہی کہ کیونکر بی آر ٹی کی لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہوا، منصوبہ ایک بلیک لسٹڈ کمپنی کو دیا گیا اور پھر کئی بار ڈیزائن میں تبدیلیاں کرنی پڑی، یہ نااہلی نہیں تو اور کیا ہے۔ بی آر ٹی شاید بن جائیگی لیکن اس غیرضروری منصوبے کا قرض ہم سالوں تک چکاتے رہیں گے۔ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اے این پی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی،ہمیں اگر آج دیوار سے لگایا جارہا ہے تو یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے پشتونوں کے حق کیلئے آواز اٹھائی اور مرکز سے عوام کا حصہ یہاں لے آئے ،اب جن لوگوں کو اس صوبے پر مسلط کیا گیا ہے وہ اپنا حصہ تک نہیں لاسکتے۔

ریاست اگر ہمیں پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کی کوشش میں لگے ہیں تو انہیں کرنے دیں لیکن پشتونوں کے حق کی بات کرنا اور اپنے وسائل کا جنگ لڑنے سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ طلباء یونین کو فوری طور پر بحالی کا اعلامیہ جاری کیا جائے اور پشتونوں کے علاقوں میں واقع جامعات و کالجز سے چھاونیاں بنانے کے عمل سے گریز کیا جائے۔

انہوں نے اپیل کی کہ تعلیمی اداروں کو سیکیورٹی زونز کی بجائے تعلیمی ادارے ہی رہنے دیا جائے۔ معدنی ذخائر بل بارے ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ ضم اضلاع کے وسائل پر قبضہ کی کوشش جاری ہے، صوبائی اسمبلی سے انتہائی عجلت میں ایک ہی دن کے اندر بل عددی اکثریت کی بنیاد پر منظور کیا گیا۔اس قانون کے تحت قبضہ ریاست اور اداروں کے غلام ذہنیت والے افراد عوام سے لے کر اپنے من پسند لوگوں کو دینا چاہتے ہیںجسکے خلاف مشاورت کے بعد قانونی راستہ کے ساتھ ساتھ سڑکوں پر نکلنے کی کال جلد دے سکتے ہیں۔

ایمل ولی خان کا کہنا تھا کہ کرک کو پچھلے چھ سال میں ایک روپے کی رائلٹی نہیں دی گئی اور انکا حق مارا جارہا ہے،خیبرپختونخوا میں پانی سے سستی ترین بجلی پیدا کی جارہی ہے لیکن بدقسمتی سے مہنگی بجلی دوبارہ ہمارے صوبے پر فروخت کی جاتی ہے، ہم نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبے کے وسائل پر اپنا حق جیتا تھا لیکن پچھلی دو حکومتوں نے اپنا حصہ تک مرکز سے لانے کی ہمت نہیں کی یا شاید ان کے پاس کوئی منصوبہ بندی ہی نہیں کہ کس طرح اپنا حق جیتا جاسکتا ہے، یہ صرف اے این پی ہی تھی جنہوں نے عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے انکے حقوق کی بات کی۔

سوا روپے سے بننے والی بجلی کو اٹھارہ،بیس اور 23روپے فی یونٹ بیچا جارہا ہے۔معدنی وسائل بارے بات کرتے ہوئے اے این پی کے صوبائی صدر کا کہنا تھا کہ باجوڑ کے پہاڑوں میں نیپرائیٹ کی ایک کثیر تعداد موجود ہے،سوات میں زمرود کی کانیں ہیں جبکہ مہمند سے قیمتی ماربلز نکالے جاسکتے ہیںجو انتہائی گرم موسم میں بھی ٹھنڈے ہوتے ہیں لیکن ان سب پر ہمارا اختیار اب نہیں دیا جارہا، ہماری جیت یہی تھی کہ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یہی اختیار اسلام آباد اور لاہور سے لاکر اپنے مقامی افراد کو دیا گیا تھا، اور آج ان وسائل پر قبضہ کرنیوالے کئی ادارے اور اس میں بیٹھے افراد اس ترمیم کو رول بیک کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ترمیم ہمارے اسلاف کا خواب تھا جو اسفندیارولی خان کی قیادت میں ہم نے پورا کردکھایا، ہم اس کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔