سعودی لڑکی اپنے باپ کے غلط رویئے کے خلاف پھٹ پڑی

لڑکی نے بتایا کہ اُس کا والد پچھلے کچھ سالوں میں اس کے دس سے زائد رشتے ٹھُکرا چُکا ہے کئی سعودی لڑکیاں والدین کی جانب سے اپنا بیاہ نہ کروانے پر عدالتوں میں پہنچ چکی ہیں

Muhammad Irfan محمد عرفان منگل 10 دسمبر 2019 13:37

سعودی لڑکی اپنے باپ کے غلط رویئے کے خلاف پھٹ پڑی
جدہ(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 10دسمبر 2019ء) بچیوں کی شادی کرنا پاکستان ہی نہیں، تمام مشرقی معاشروں کی طرح سعودی عرب کا بھی مسئلہ ہے۔ اکثر والدین اپنی بیٹیوں کے مناسب رشتے کی تلاش کے حوالے سے بہت محتاط ہوتے ہیں، اور جب تک اُنہیں سو فیصد اپنی مرضی کا رشتہ نہیں مِلتے، وہ بیٹی کوگھر پرہی بٹھائے رکھتے ہیں۔ کئی لڑکیاں والدین کے غلط رویئے اور غیر ذمہ داری کے باعث اتنی زیادہ عمر کی ہو جاتی ہیں کہ پھر اُن کے رشتے آنے بند ہو جاتے ہیں اور پھر اُن کی ساری عمر اپنے گھر کی دہلیزپر ہی ازدواجی زندگی کے خوش نما خوابوں کو حسرتوں میں بدلتے بدلتے دیکھ کر ہی گر جاتے ہیں۔

سعودی والدین کے اس غلط رویئے پر اب سعودی لڑکیوں نے آواز اُٹھانا شروع کر دی ہے۔ کئی سعودی لڑکیاں اپنے باپ کے خلاف عدالتوں میں پہنچ چکی ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی اخبار 24 سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون نے بتایا کہ اُس کی عمر 37 سال ہو چکی ہے، وہ ایک جگہ ملازمت کرتی ہے۔ مگر اُس کے والد صرف اسی لیے اُس کی خاطر آئے رشتوں کو ٹھُکرا دیتے ہیں تاکہ شادی کی صورت میں وہ بیٹی کی تنخواہ کی رقم سے محروم نہ ہو جائیں۔

لڑکی نے بتایا کہ اس کے والد نے ایک رشتہ لڑکے کی تنخواہ 7 ہزار ریال ہونے کا بہانہ لگا کر ٹھُکرا دیا۔ حالانکہ یہ مناسب رقم ہے۔ ایک اور رشتہ لڑکے کے دُور دراز علاقے میں مقیم ہونے پر ٹھُکرایا، جب کہ ایک لڑکے کو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نہ ہونے پر رد کیا۔ چوتھا رشتہ جسے انکار کیا گیا، وہ ایسے مرد کا تھا جو اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا۔

جدہ کی رہائشی ایک اورخاتون نے بتایا کہ اُس کی عمر 35 برس ہو چکی ہے، اب تک اُس کے والد اُس کے دس سے زائد رشتے ٹھُکرا چکے ہیں۔ تاہم اب میں اپنے والد کا یہ منفی رویہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ میں نے عائلی امور کی عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے کہ میری شادی کا فیصلہ خود مجھے کرنے کا حق دیا جائے۔ جس کے بعد عدالت نے میرے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔

اب مجھے اُمید ہے کہ یہ اہم فیصلہ میرے ہاتھ میں ہونے کے باعث اب میں جلد ہی ازدواجی زندگی کی خوشیوں سے لطف اندوز ہو سکوں گی۔کیونکہ سعودی اعلیٰ عدالتی کونسل نے والدین کے حوالے سے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے کہ اگر کسی لڑکی کا والد یا بھائی اُس کی شادی میں جان بُوجھ کر رکاوٹ بن رہے ہوں تو وہ عدالت سے رجوع کر کے اپنے حق میں فیصلہ لے سکتی ہے۔